دنیا بھر میں میڈیا کے ادارے یہ اٹکل لگانے میں مصروف ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال کا حتمی نتیجہ کیا برآمد ہوگا۔ اسرائیل اور حزب اللہ کی لڑائی میں جیت کس کی ہوگی اور کون مکمل شکست سے دوچار ہوگا؟
بیشتر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی بیشتر لڑائیاں غیر نتیجہ خیز رہی ہیں۔ اچھی خاصی قتل و غارت کے بعد معاملات تعطل کی کیفیت پر ختم ہوتے رہے ہیں۔ اسرائیل اور حزب اللہ کی آخری لڑائی کا بھی یہی معاملہ تھا۔ اسرائیل نے حزب اللہ کو ختم کرنے کے لیے لبنان پر تابڑ توڑ حملے کیے تھے۔ حزب اللہ کا تو کچھ خاص نقصان نہیں ہوا تاہم لبنان تباہی سے دوچار ہوا۔ ہلاکتیں بھی زیادہ ہوئیں اور مالی نقصان بھی بہت ہوا۔
اب بھی کیفیت کچھ ایسی ہی ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ایران اگرچہ اس لڑائی میں کود پڑا ہے مگر اب بھی بنیادی لڑائی تو اسرائیل اور حزب اللہ ہی کے درمیان ہے۔ اسرائیل نے ایران کو نشانہ بنانے سے تاحال گریز کیا ہے کیونکہ اس صورت میں نئے محاذ کھل سکتے ہیں۔
اسٹریٹجک امور کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کو مکمل طور پر ختم کرنا اسرائیل کے لیے ممکن نہیں کیونکہ اس کی جڑیں عوام میں ہیں۔ حملے کی صلاحیت میں اچھی خاصی کمی آجانے پر بھی حزب اللہ کا بنیادی ڈھانچا تاحال برقرار ہے۔ سربراہ حسن نصراللہ اور چند دیگر کمانڈرز کی شہادت سے بھی معاملات میں بہت زیادہ خرابی پیدا نہیں ہوئی ہے۔
بیشتر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اب چھاپہ مار جنگ شروع ہوسکتی ہے۔ اسرائیلی مفادات کو دنیا بھر میں خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ اسرائیلی حکومت بھی اس بات کو اچھی طرح جانتی اور سمجھتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ بعض معاملات میں احتیاط بھی برت رہی ہے۔
امریکا اور یورپی ممالک پر بھی شدید دباؤ ہے۔ اگر اسرائیل کو نہ روکا گیا تو کل کو امریکا اور یورپ کے مفادات کو بھی شدید ردعمل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ دنیا بھر میں یہ تاثر تو پوری قوت کے ساتھ موجود ہے کہ اسرائیل کو امریکا اور یورپ نے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ ایسے میں یہ سوچنا سادہ لوحی کی انتہا ہوگی کہ اگر حزب اللہ کو ختم کرنے کے نام پر لبنان اور ایران کو تاراج کیا گیا تو دنیا بھر میں امریکی اور یورپی مفادات محفوظ رہ سکیں گے۔
بیشتر تجزیہ کار مشرقِ وسطیٰ کی لڑائیوں کو پرپیچیوئل وار یعنی کبھی ختم نہ ہونے والی جنگ قرار دیتے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ ایسی لڑائیاں کبھی ختم بھی نہیں ہوتیں اور ان میں کوئی یا مفتوح بھی نہیں ہوتا۔ کبھی کسی کا پلڑا بھاری رہتا ہے تو کبھی کسی کا۔ یہ سب کچھ اِسی طور چلتا رہتا ہے۔