خیبر پختون خوا اور قبائل کے عوام کا دکھ، غصہ اور خفگی اس نسل کے لیے تو قابل فہم ہونی چاہیے جس نے اس خطے کو پہلی افغان جنگ کا بوجھ اُٹھاتے اور دوہری ہوتی ہوئی کمر کے باعث کراہتے ہوئے دیکھا ہے مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ اب ہر نسل اس صورت حال کو سمجھنے لگی ہے۔ اسی کی دہائی میں ایک طرف امریکا کا تابع مہمل بننے کی وجہ سے خطے کا سماجی تانا بانا بکھر رہا تھا تو دوسری طرف سوویت یونین اپنا غصہ تباہ کن بم دھماکوں کے ذریعے نکال رہا تھا جس کے باعث یہ خطہ دو بڑی طاقتوں کے درمیان سینڈوچ بن کر رہ گیا تھا۔ امریکا نے سوویت یونین سے ویت نام کے بدلے کی ٹھانی تو خطرناک ہتھیاروں کی حامل دوسپر طاقتوں کی لڑائی کا میدان یہ علاقہ بنا۔ سوویت یونین اور امریکا یعنی کے جی بی اور سی آئی اے کی سردجنگ کی کہانیوں کو ناولوں اور سنسنی خیزداستانوں میں پڑھ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جایا کرتے تھے چہ جائیکہ دنیا کے دو دیوہیکل اور باہم نبرد آزما حریفوں کے درمیان عملی جنگ کسی سرزمین پر لڑی جائے تو اس میدان کی حالت کا تصور بھی محال ہے مگر پختون بیلٹ نے یہ سارا طوفان اور سانڈوں کی لڑائی اپنے سینے پر برداشت کی۔ یہ جنگ اپنے اثرات اور ہلاکت خیزی کے لیے ایک صدی تک کافی تھی۔ یہ جنگ پاکستانیوں کی بڑی تعداد کا رومانس بنا دی گئی تھی جو سمجھتے تھے کہ سوویت یونین کے نکلتے ہی پاکستانیوں لیے دریائے آموہی نہیں وسط ایشیا کے برف زاروں کی دنیائیں بھی کھل جائیں گی اور وہ ویزے پاسپورٹ کے تکلفات سے عاری ہو کر بخارا وسمر قند اشگبت اور آستانہ تک اپنے پرکھوں کے دیسوں کی دید کے قابل ہو سکیں گے۔
مظفر وارثی مرحوم کی پرسوز آواز میں ان کی اپنی لکھی ہوئی نظم ’’جو کوہساروں میں جاری ہے وہ ساری جنگ ہماری ہے‘‘ کے زیر اثر ہماری طرح لاتعداد طلبہ اور نوجوان جنگلوں اور پہاڑوں سے گزرتے ہوئے عین سوویت افغان جنگ کے عروج کے دنوں میں کوہساروں میں پہنچتے رہے۔ بعد میں وقت بدلا تو مظفروارثی کی جگہ فیض کے کلام میں پناہ لینا پڑی کہ ’’یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر‘‘۔ ہوا یوں کہ یہ جنگ ختم ہوئی تو فریقین نے اپنی لڑائی ختم کرتے ہوئے یہاں مستقل خانہ جنگی کے حالات پیدا کیے اور یوں عالمی طاقتوں کے درمیان جنگ کے بعد بھی اس خطے کو امن نصیب نہ ہوا افغان گروپوں کی باہمی لڑائی کے چرکے بھی اسی زمین کو سہنا پڑے۔ تھوڑا عرصہ گزرا تو جنگ کا علاج امن سے کرنے کے بجائے جنگ کا علاج جنگ ہی سے کرنے کا نسخہ آزمانا شروع کر دیا گیا اور خانہ جنگی میں ملوث افغان گروپوں کے علاج کے لیے طالبان جنگجو تراشے گئے۔ طالبان پراسرار ذرائع سے حاصل ہونے والی جدید اور چمچاتی ہوئی گاڑیوں پر بیٹھ کر افغانستان کو فتح کرتے چلے گئے۔ کوئی پوچھے کہ مولانا سمیع الحق کے دارالعلوم حقانیہ اور دوسرے مدارس میں قال للہ وقال الرسول پڑھنے والے بچوں کو چمچاتی ہوئے ویگو ڈالے اور ان کے لیے ڈیزل پٹرول کہاں سے آیا؟ اس نئی جنگ نے بھی پاکستان کے پشتون بیلٹ کا ہی قیمہ بنایا۔ اس خطے کا کلچر روایات ثقافت قبائلی نظام سب کچھ بندوق کی نال تلے کراہنے لگا۔ منظر بدلا تو نائن الیون کو بہانہ بناتے ہوئے ایک اور جنگ کا بوجھ بھی اسی خطے کے عوام پر لاد دیا گیا۔ اس بار اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا۔ اس بار کی جنگ دینی اصطلاحات کے بجائے روشن خیال اعتدال پسندی اور لبرل ازم کی دیدہ زیب پیکنگ میں دستیاب تھی۔ اس بار ایک نیا عذاب ڈرون حملوں کی صورت میں نازل ہوا۔ اس کے بعد رنگ برنگے آپریشنوں کا سلسلہ چل پڑا۔ ہر آپریشن کو ناگزیر اور عارضے کے علاج کا تیر بہدف نسخہ بنا کر پیش کیا گیا اور خطہ اب تک اس جنگ کے حصار سے باہر نہیں نکل سکا۔
طالبان نے کابل کو فتح کرلیا اور اب جنگ کی بے تاب تمنائوں اور خواہشات کو قرار آجانا چاہیے تھا مگر اب طالبان حکمرانوں پر
دبائو کے لیے دوبارہ فوجی آپریشنوں اور اڈوں کی فرمائشیں اور باتیں ہونے لگیں۔ یوں مضمحل اور مجروح علاقے اور عوام نے ایک اور جنگ کا بوجھ اُٹھانے سے بیزاری ظاہر کر دی۔ ایک اور لامحدود اور لامتناہی جنگ کا بوجھ اُٹھانے سے معذوری کو غداری کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ تیس سال پرانا دور ہوتا تو لوگ غداری کے ہینڈ بلز ثواب سمجھ کر مساجد کے باہر تقسیم بھی کر رہے ہوتے اور وصول کرنے والے اہتمام اور عقیدت کے ساتھ انہیں ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہوتے۔ شاید زمانہ بدل گیا ہے یا وقت کا دھار ا بہہ گیا ہے۔ سوشل میڈیا کی آمدکا ایک فائدہ تو یہ بھی ہوا کہ اب لوگ بند کمروں، اسٹوڈیوز اور لیبارٹریوں میں گھڑے گئے بیانیوں کو آسمانی صحیفوں جیسا تقدس نہیں دیتے اور لوگ ان پر یقین کرنے سے انکاری ہونے لگے ہیں۔ آج ملک کی پچیس کروڑ آبادی میں سے اٹھارہ کروڑ کے ہاتھ میں انٹرنیٹ سے لیس اسمارٹ فون ہیں۔ دنیا اور دنیا کی معلومات کے خزانے ان کی انگلیوں کی پوروں میں سمٹ آئے ہیں۔ وہ دنیا کے حالات سے اپنے معاشروں اور مقدر کا تقابلی جائزہ لینے کی بہترین پوزیشن میں آگئے ہیں۔ دوڈھائی عشرے پہلے کا معاملہ جدا تھا جب غدار سازی کے کارخانے سے کوئی نیا غدار برآمد ہوتا تھا اور لوگ اس بیانئے کو ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے۔ پی ٹی وی اور پرنٹ میڈیا اس پروڈکٹ اور فخریہ پیشکش کی خوبصورت اور پرکشش انداز میں مارکیٹنگ کرتا تھا اور لوگ اس بیانئے پر دل وجان سے فدا ہوجایا کرتے تھے۔ چھوٹے صوبے کے عوام تو اس کھیل کے بارہویں کھلاڑی ہوا کرتے تھے مگر پنجاب ان بیانیوں کی سب سے آسان مارکیٹ تھا جہاں چند صحافتی اداروں کی مدد سے غداری کے سرٹیفکیٹ کا مال گرم کیک کی طرح فروخت ہوتا تھا ۔جس شخص کو سرکار غدار قرار دیتی تو باقی سب عزیز میاں قوال کے ہم نوائوں کی طرح لہک لہک اور چہک چہک کر اس پر سردھنتے اور تالیاں
پیٹتے چلے جاتے۔ کسی کو بھارت یا افغانستان کا ایجنٹ کہا جاتا تو منڈی میں شام تک یہ سودا فروخت ہوجاتا کسی کو ہائی جیکر یا قاتل قرار دیا جاتا تو لوگ اس ٹھیلے پر ٹوٹ پڑتے اور سرشام ہی یہ ٹھیلہ خالی ہوچکا ہوتا۔
اچھے دن تھے سادہ مزاج لوگ تھے اور اطلاع اور ابلاغ ان تک چھن چھن کر پہنچتے تھے۔ جس کے باعث حقیقت اور گمان میں تفریق مشکل تھی سو وہ ہر بیانیے پر اعتبار کرکے مرمٹتے۔ جس کو قاتل غدار یا ہائی جیکر کہا جاتا اس کی تمام عمر نہ سہی مگر عمر عزیز کا بڑا حصہ یہ لیبل کھرچنے میں ضائع ہوجاتا۔ فاطمہ جناح، سید الوالاعلیٰ موددوی، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، مصطفی کھر، نوازشریف، ولی خان، بلوچستان کے مینگل، مری، بگٹی، بزنجو اور اب عمران خان، منظور پشتین اور ماہ رنگ بلوچ اسی صورت حال سے دوچار ہیں۔ سوشل میڈیا کی آمد کے بعد اب تبدیلی یہ آگئی ہے کہ پنجاب میں غدار سازی کی صنعت زوال کا شکار ہے کیونکہ مال کی طلب کم ہوگئی ہے اور نتیجتاً اس کاروبار میں مندی کا ایسا موسم آگیا ہے جو ڈھائی تین سال سے تیزی میں تبدیل نہیں ہورہا۔ اسمارٹ فون کے ساتھ ساتھ جس چیز نے عوامی رجحان میں تبدیلی پیدا کی وہ یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں حالات سے مایوس ہو کر بیرونی دنیا میں جانے والوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ ہر دوسرے تیسرے گھر کا ایک فرد بیرونی دنیا میں ہے۔ اس سے معاشروں کے درمیان حالات، واقعات اور قسمت کا تقابلی جائزہ لینے میں آسانی ہوگئی ہے اور اس نے ایک عام نوجوان کی جانچ پرکھ کی صلاحیت میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے۔ بدلتے ہوئے حالات اور نئے رجحانات کی حامل نسل کے سامنے آنے کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ غدار سازی کے کارخانوں پر تالے چڑھا دیے جائیں بصورت دیگر چند برس بعد وقت خود ہی ان کواڑوں پر بے تاثری اور بے تاثیری کے جالے چڑھادے گا۔ سخت تعزیری قوانین بھی اس مندی کو تیزی میں نہیں بدل سکیں گے۔ قصہ مختصر پشتون بیلٹ اگر ایک اور جنگ کا بوجھ اُٹھانے سے انکاری ہے تو یہ غداری نہیں قوت برداشت کا خاتمہ ہے۔