قصہ الفاظ اور ان کے معانی کے ایکسیڈنٹ کا

416

یہ تو ٹھیک ہے کہ اکیسویں صدی میں اطلاعات اور ابلاغ کی شاہراہ عظیم پر سفر ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے لیکن اس کے باوجود یہ بات نوٹ نہ کرنا درست نہیں کہ اس شاہراہ عظیم پر کہیں بھی ٹریفک سگنل موجود نہیں۔ چنانچہ عام شاہراہ پر اتفاق سے حادثے ہوتے ہیں اور یہاں اتفاق سے نہیں ہوتے۔ مطلب یہ کہ اس شاہراہ پر حادثوں کی ریل پیل ہو گئی ہے۔ ان حادثوں میں ایک چھوٹا سا حادثہ (جسے خوشگوار بھی کہا جا سکتا) الفاظ اور ان کے معافی کے ساتھ بھی پیش آرہا ہے۔ یعنی آئے دن کوئی نہ کوئی لفظ اور اس کا مفہوم کچلا جاتا ہے۔ خیر لفظ تو بے جان ہوتا ہے وہ کوئی انسان تو نہیں کہ جس کے حادثے کا نوٹس لیا جائے یا اس کا ماتم کیا جائے۔ رہے معنی تو وہ تو بیچارے ساختیات اور پس ساختیات کے زیر اثر پہلے ہی ’’التوا‘‘ کا شکار ہو چکے ہیں، چنانچہ اوّل تو ان کے کچلے جانے کا سوال پیدا نہیں ہوتا اور اگر ہوتا بھی ہے تو معنی نظر کب آتے ہیں؟ کہ ان کے ساتھ حادثے پر افسوس کا اظہار کیا جائے۔ مگر صاحب بعض الفاظ اور معنی بڑے ڈھیٹ ہیں۔ وہ کسی نہ کسی طرح ہماری توجہ حاصل کر ہی لیتے ہیں۔ چنانچہ آج کا کالم ایسے ہی دو لفظوں کا قصہ ہے، مگر اس قصے کا تعلق مذکورہ شاہراہ عظیم اور عالمی صورت حال سے نہیں یا ہے بھی تو برائے بیت ورنہ اصولاً یہ مقامی کہانی ہے۔

ہمیں معلوم ہے کہ آج کل مقامی چیزیں زیادہ پسند نہیں کی جاتیں، لیکن گھبرایئے نہیں اس کہانی میں آپ کی تفنن ِطبع کے کئی سامان موجود ہیں۔ خیر کہانی یہ ہے کہ ملک میں بڑے حادثوں یا تخریب کاری کی اہم وارداتوں میں آئے دن لوگ مرتے اور زخمی ہوتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہمارے حکمران بڑے رحم دل ہیں چنانچہ وہ ہر واردات میں ہلاک ہونے والوں کے ورثا اور زخمیوں کو براہ راست ’’معاوضہ‘‘ ادا کرتے ہیں۔ معاوضے کا لفظ ذرائع ابلاغ اور خاص طور پر سرکاری ذرائع ابلاغ کے توسط سے زبان زد خاص و عام ہو گیا ہے، مگر صاحب! معاوضہ تو ’’خدمت‘‘ کا دیا جاتا ہے اور خدمت میں بہر حال ’’محنت‘‘ ہوتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ’’ معاوضے‘‘ کی ادائیگی کا مفہوم یہ ہے کہ حادثے میں ہلاک یا زخمی ہونے والے نے ہلاک یا زخمیہو کر کسی نہ کسی کی بڑی خدمت کی اور حکومت وقت نے ان کی خدمت یا محنت کا اعتراف کرتے ہوئے معاوضہ ادا کر دیا۔ خوب، بہت خوب۔ مگر یہ تو کہانی کا پہلا موڑ ہے۔

کہانی کا دوسرا موڑ یہ ہے کہ جن مقامات پر ان دنوں ’’ معاوضے‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے کچھ برسوں پہلے تک انہی مقامات پر لفظ ’’ہرجانہ‘‘ بروئے کار آتا تھا اور یہ بالکل درست تھا، اس لیے کہ حکومت امن و امان کی ذمے دار ہے اور کہیں امن وامان میں ’’ہرج‘‘ واقع ہو تو حکومت اس ’’ہرج‘‘ کا ہرجانہ ادا کرنے کی پابند ہے۔ اب کہنے کو تو معاوضہ بھی ایک لفظ ہے اور ہرجانہ بھی ایک لفظ ہے لیکن ان کے مفہوم میں زمین آسمان کا فرق ہے اور جب ان کے مفہوم میں فرق ہے تو ان کے استعمال کے اثرات میں بھی فرق واقع ہو جائے گا اور یہ فرق واقع ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران معاوضے اس طرح ادا کرتے ہیں جیسے وہ ہلاک یا زخمی ہونے والوں پر کوئی احسان کر رہے ہوں۔ مزید یہ کہ خود کو بدامنی کے لیے براہ راست ذمے دار نہیں سمجھتے، چنانچہ اخبارات میں اعلیٰ حکام کے ایسے بیانات شائع ہونے لگے ہیں کہ دھما کے تو ہوتے رہیں گے، حکومت انہیں روک نہیں سکتی وغیرہ۔ بلا شبہ حکمرانوں کے طرز احساس میں یہ تبدیلی لفظوں کے غلط استعمال کا نتیجہ نہیں لیکن اس کے باوجود حکمرانوں کی ذہنیت اور لفظوں کے غلط استعمال میں موجود ہم آہنگی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اخبارات ورسائل میں معاوضے اور ہرجانے کے امتیاز کو نہ سمجھنے کی صورت حال ذمے دار افراد کی لاعلمی کا شاخسانہ ہے لیکن سرکاری ذرائع ابلاغ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا مسئلہ لاعلمی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ وہ حکومت کو کسی ابتری کا ذمے دار ٹھیرانے کے تصور سے بھی کانپتے ہیں۔ چنانچہ وہاں اگر کسی کو خیال بھی آتا ہو گا کہ معاوضے کا لفظ غلط استعمال ہو رہا ہے تو وہ سوچتا ہوگا مجھے کیا؟ اس طرح مجھ پر کوئی عتاب تو نازل نہیں ہوگا۔

لفظ اور مفہوم کا دوسرا ایکسیڈنٹ خواتین سے متعلق ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ زنا بالجبر یا عصمت دری کو لفظ ’زیادتی‘‘ کی نذر کر دیا گیا۔ حالانکہ ان الفاظ اور ان کے معنی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ زیادتی میں خیر سے شدت ہے ہی نہیں لیکن اس میں ’’عصمت‘‘ کا تصور بھی سرے سے موجود نہیں۔ حالانکہ ہمارے مذہب اور ہماری تہذیب میں عصمت کا تصور بنیادی نوعیت کا حامل ہے۔ پھر زنا بالجبر اور عصمت دری میں جو سفا کی اور ہولناکی ہے وہ زیادتی کے لفظ سے بیان ہی نہیں ہوسکتی۔ زیادتی بری بات ہے مگر وہ ’’گناہ کبیرہ‘‘ نہیں ہے۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ مذکورہ الفاظ کی جگہ زیادتی کا استعمال خود لفظ کے ساتھ ایک زیادتی ہے۔ مثلاً صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ زیادتی کے لفظ میں نرمی کا عنصر در آیا ہے اور اب مرد حضرات اسے ایک دوسرے کے بارے میں استعمال کر کے حسب توفیق مسکرا یا قہقہہ لگا دیتے ہیں۔

یہ صورت حال لا علمی کے علاوہ جعلی اور مصنوعی اخلاقیات کے عام ہونے کا بھی نتیجہ ہے یعنی بعض لوگوں کو زنا بالجبر اور عصمت دری کے الفاظ ذرا غیر مہذب اور سوقیانہ سے لگتے ہیں۔ انہیں ان کا استعمال کرتے ہوئے ’’شرم‘‘ محسوس ہوتی ہے ’’حیا‘‘ آتی ہے۔ حالانکہ انہیں شرم اور حیا اس بات پر آنی چاہیے کہ انہوں نے غلط لفظ کے استعمال سے ایک بہت بڑے جرم اور گناہ کبیرہ کی ہولناکی، مذمت اور شدت کو کم کر دیا۔ جب معاشرے میں حقیقی اخلاقیات کمزور پڑتی ہے تو پھر یہی ہوتا ہے۔ اخلاق کے بجائے اخلاق کا ’’مظاہرہ‘‘ اہم ہو جاتا ہے۔ مگر صاحبان وصاحبات ذرا غور تو کیجیے کہ یہ کتنی ہولناک صورت حال ہے۔

دیکھا جائے تو یہ صورت حال انسانی حقوق کی کھلی اور سنگین خلاف ورزی ہے، چنانچہ ہمیں توقع ہے کہ کوئی نہ کوئی این جی او الفاظ اور ان کے معانی کے ایکسیڈنٹس پر توجہ ضرور دے گی۔ کیا خبر اس طرح یہ معاملہ جنرل عاصم منیر تک رسائی حاصل کرلے اور اطلاعات اور ابلاغ کی شاہراہ عظیم کے پاکستانی سیکٹر میں ٹریفک حادثات کی تعداد کچھ کم ہو جائے۔