امریکا میں دس روز (حصہ اوّل)

339

ستمبرکے آخری عشرے میں الھدیٰ اسلامک سینٹر نیویارک اور النور اسلامک سینٹر ہیوسٹن کی دعوت پر امریکا میں میلاد النبیؐ کی مناسبت سے مختلف کانفرنسوں میں شرکت کا موقع ملا۔ ہمارا مشاہدہ ہے: مغربی ممالک میں مقیم پاکستانی تارکین ِ وطن وہاں کی مقامی سیاست کے بجائے پاکستانی سیاست میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، جبکہ بھارتی تارکین ِ وطن اپنی نسلوں کی اعلیٰ تعلیم پر توجہ دیتے ہیں، مقامی سیاست میں مؤثر کردار ادا کرتے ہیں اور امریکا کے فیصلہ کُن اداروں میں نفوذ کر کے بھارت نواز پالیسیاں بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ صدارتی امیدوار کملا ہیرس کی والدہ بھارتی ہیں اور والد کا تعلق جزائر ِ غرب الہند سے ہے۔میں ہمیشہ وہاں کے پاکستانی تارکین ِ وطن کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ لوگ مقامی سیاست میں مؤثر کردار ادا کریں تاکہ پاکستان نواز لابی وہاں مضبوط ہو۔

اس سال 5 نومبر کو امریکا میں صدارتی انتخابات ہیں، ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار صدر بائیڈن کے عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے اُن پر تنقید کی جاتی تھی، پھر جولائی میں اُن کا اپنے حریف ریپبلکن امیدوار ٹرمپ کے ساتھ ٹیلی ویژن مباحثہ ہوا اور کمزور کارکردگی کے باعث ان کی اپنی پارٹی میں ان کے خلاف شدید مزاحمت شروع ہو گئی تھی، اس کے نتیجے میں آخر کار انہیں موجودہ نائب صدر کملا ہیرس کے حق میں مقابلے سے دست بردار ہونا پڑا۔ صدارتی مقابلے سے بائیڈن کی اچانک دست بردار ی نے امریکی سیاست کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ عوامی جائزوں کے مطابق بائیڈن کے مقابلے میں ٹرمپ کو سبقت حاصل تھی، مگر کملا ہیرس نے ٹیلی ویژن مباحثے میں بہتر کارکردگی دکھائی اور اب عوامی جائزوں کے مطابق دونوں صدارتی امیدواروں میں مقبولیت کے اعتبار سے فرق کم رہ گیا ہے۔ امریکا میں روایتی طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کی حامی ریاستوں کو بلو اسٹیٹس اور ریپبلکن پارٹی کی حامی ریاستوں کو ریڈ اسٹیٹس کہا جاتا ہے، جبکہ بعض ریاستیں سیاسی وابستگی کے اعتبار سے معلّق کہلاتی ہیں، یعنی وہ تسلسل کے ساتھ کسی ایک جماعت کے ساتھ وابستہ نہیں رہتیں، اُن کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔ پس وہ جس پارٹی کی حمایت کرلیں، اس کی جیت کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔ 2020 کے انتخابات میں ایریزونا، فلوریڈا، جارجیا، مشی گن، نارتھ کیرولائنا، پینسلوینیا، وسکونسن اور نِوادا معلق ریاستیں قرار دی گئی تھیں، ایک غیرمقبول گرین پارٹی بھی ہے، اس کا رہنما جِل اسٹین ہے۔

ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ٹرمپ کسی تعارف کے محتاج نہیں، وہ امریکا کے پینتالیسویں صدر رہ چکے ہیں، ان کا منفرد اور غیر روایتی طرز سیاست لوگوں کے علم میں ہے۔ یروشلم میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی، ناٹو کے رکن ممالک پر دفاعی بجٹ میں اضافے کے لیے دبائو، روس اور شمالی کوریا کے ساتھ بہتر سفارتی تعلقات، امریکی عدالت عظمیٰ میں چار ججوں کا تقرر، اسقاطِ حمل کے قوانین میں اصلاحات اور میکسیکو کے ساتھ سرحدی دیوار بنانا ان کے نمایاں کارنامے ہیں۔ ٹرمپ اپنی اُفتادِ طبع کے اعتبار سے جنگوں کا خریدار نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے اپنے دور میں امریکا کو افغانستان اور شام کی جنگوں سے نکالا۔ ’’امریکا سب سے پہلے‘‘ اُن کا نعرہ تھا، اُن کا فلسفہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے وسائل اپنے لوگوں پر خرچ کرنے اور اُمراء کو ٹیکسوں میں رعایت دینی چاہیے۔ روسی صدر پیوٹن کے لیے اُن کا نرم گوشہ تھا اور چین اُن کا ہدف تھا، چین کی درآمدات پر وہ ڈیوٹی بڑھاتے رہے، لیکن چین کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا سکے، کیونکہ امریکا اور یورپ سمیت دنیا کی مارکیٹوں میں چینی مصنوعات کا غلبہ ہے۔ اوباما بھی دعویٰ کرتے رہے، ٹرمپ کی بھی خواہش رہی کہ بڑی بڑی صنعتوں کو واپس امریکا لایا جائے، لیکن کم از کم فی گھنٹہ اُجرت اور دیگر قوانین کے سبب وہ صنعتیں چلانے میں چین کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اپنی تلوّن مزاجی کے اعتبار سے ٹرمپ ناقابل ِ پیش گوئی رہے ہیں، وہ قومی سلامتی کے سربراہ جیسے عہدوں پر تقرر اور برطرفی ٹویٹر پر کرتے رہے ہیں۔ دراصل امریکا اور مغرب میں سفید فام نسل پرست انتہا پسند سیاست دان سر اٹھا رہے ہیں، ٹرمپ بھی انہی میں سے ہیں۔ یہ سفید فام لوگوں کو ممکنہ خطرات سے ڈراتے رہتے ہیں کہ تارکینِ وطن آپ کی ملازمتوں اور مواقع پر قابض ہورہے ہیں، آپ کی آبادی کا تناسب آنے والے زمانوں میں بدل سکتا ہے، تارکین ِ وطن آپ کی سیاست پر غالب آسکتے ہیں، وغیرہ۔

برطانیہ، فرانس، جرمنی اور ہالینڈ کی سیاست میں بھی ایسا ہی ارتعاش ہے، برطانیہ کے حالیہ انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کا سیاستدان ’’نائیجل فراج‘‘ اسی فکر کا ترجمان تھا۔ ٹرمپ کی شخصیت کے منفی پہلو یہ ہیں: انہوں نے کووِڈ 19 کی وبا سے نجات کے لیے مؤثر پالیسی اختیار نہیں کی، وہ قوم کی تقسیم کا باعث بنے، میڈیا سے شاکی رہے، دوبار اُن کا ناکام مواخذہ ہوا، بین الاقوامی تعلقات میں مستقل مزاج نہیں تھے، ماحولیاتی پالیسی کی بابت پیرس معاہدے سے الگ ہوگئے، ایران سے نیوکلیئر معاہدہ ختم کر دیا،گزشتہ انتخابات کو فراڈ قرار دیتے رہے۔ 6 جنوری 2021 کو کیپٹل ہِل میں، جہاں کانگریس کے ایوان اور دفاتر ہیں، اُن کی شہ پر فسادات ہوئے، اپنے عدالتی نظام پر بھی عدمِ اعتماد کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ عوام میں مقبولیت ان کی ترجیح رہی، عالمی سیاست ومعاہدات میں ناقابل ِ اعتبار سمجھے گئے، پالیسی میں تسلسل نہیں تھا، جذباتی اور غیرحکیمانہ فیصلے اُن کا شعار تھا۔ البتہ پاکستانی تارکین ِ وطن کا کہنا ہے: ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیاں بہتر تھیں، کاروبار ترقی کر رہا تھا اور ملازمت کے مواقع پیدا ہورہے تھے۔

ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہیرس جنوبی ایشیائی پس منظر رکھتی ہیں، جیت کی صورت میں وہ ممکنہ طور پر پہلی خاتون صدر بن سکتی ہیں۔ لیکن امریکیوں نے آج تک کسی عورت کو منصب ِ صدارت پر فائز نہیں کیا۔ وہ ترقی پسندانہ پالیسیوں کی حامی ہیں، عدمِ مساوات کو ناپسند کرتی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں حساس ہیں، صحتِ عامّہ پر مبنی پالیسیوں، نظامِ انصاف میں انقلابی تبدیلیوں، خواتین کے حقوق، اسقاطِ حمل اور جرائم کی بیخ کنی پر مبنی پالیسیوں کی حامی ہیں۔ پبلک پراسیکیوٹر اور اٹارنی جنرل رہ چکی ہیں، شعبۂ قانون بالخصوص فوجداری قوانین کی ماہر ہیں، نائب صدر ہونے کے سبب بین الاقوامی سیاست کا تجربہ ہے، بائیڈن اور ٹرمپ کے مقابلے میں نسبتاً کم عمر ہیں۔ گمان ہے کہ وہ قدیم وجدید نسل میں پُل کا کردار ادا کرسکتی ہیں، تارکینِ وطن کے لیے اُن کی پالیسیاں متوازن ہوسکتی ہیں۔ مباحثے میں ٹرمپ پر ذاتی حملے بھی کیے، ممکنہ طور پر نظامِ عدل میں بہتری لاسکتی ہیں، وغیرہ، اُن کے ناقدین بھی موجود ہیں۔ خیال یہ ہے کہ یہ مضبوط پالیسیاں نہیں بنا پائیں گی، اسی طرح عدل کے شعبے میں اُن کی خدمات کے حوالے سے منفی تبصرے بھی کیے جاتے ہیں۔

امریکا کا انتخابی نظام پوری دنیا سے مختلف ہے، امریکا میں کوئی مرکزی الیکشن کمیشن یا انتخابی ادارہ نہیں ہے۔ پچاس ریاستوں کے اپنے اپنے انتخابی ادارے اور قوانین ہیں اور ہر ریاست میں صدارتی انتخابات مقامی قوانین اور انتظامیہ کے تحت ہوتے ہیں۔ صدارتی امیدوار کی جیت کا فیصلہ عوامی ووٹوںکی اکثریت پر نہیں ہوتا۔ امریکا میں ممکن ہے کہ مجموعی ووٹوں کی زیادہ تعداد ایک امیدوار کو مل جائے، لیکن ہوسکتا ہے کہ اُسے انتخاب میں کامیابی نہ ملے۔ وہاں آبادی کی بنیاد پر ہر ریاست کے لیے نائبین کی تعداد مقرر ہے، ہرصدارتی امیدوار اپنے نائبین (Delegates) کی فہرست پہلے فراہم کردیتا ہے۔ یہ سب لوگ انتخابی کالج کے ارکان کہلاتے ہیں۔ ہرچار سال بعد نومبر کے پہلے پیر کے بعد آنے والے منگل کو صدارتی انتخاب ہوتا ہے۔ جنوری میں انتخابی کالج کے نائبین کا اجلاس بلایا جاتا ہے۔ یہ ووٹ دینے میں آزاد ہوتے ہیں، لیکن آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی نامزد نائب نے اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ دیا ہو۔ انتخابی کالج کے اراکین کی تعداد 538 ہے اور 270 ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار انتخابات جیت جاتا ہے۔ مگر رسمی انتخاب جنوری کے اوائل میں ہوتا ہے اور 20 جنوری کو نومنتخب صدر اپنے عہدے کا حلف اٹھاتا ہے۔ امریکا آئینی اعتبار سے جمہوری ملک ہے، لیکن اس کا انتخابی نظام حقیقی جمہوریت کا عکاس نہیں ہے، مثلاً: ایک ریاست سے ایک امیدوار دس لاکھ ووٹ لیتا ہے اور اس کے مقابل دوسرا امیدوار نو لاکھ ننانوے ہزار نو سو ننانوے ووٹ لیتا ہے، تو اُس ریاست کے سارے نائبین پہلے امیدوار کو مل جائیں گے اور دوسرے امیدوار کے سارے ووٹ نتائج کے اعتبار سے صفر ہوجائیں گے، یعنی اُس کے حصے میں انتخابی کالج کا ایک بھی رکن نہیں آئے گا، سوال پیدا ہوتا ہے: کیا یہ حقیقی جمہوریت ہے۔ (جاری ہے)