کراچی (رپورٹ: قاضی جاوید) تنازع فلسطین کا ایک ریاستی حل ناگزیر ہے ‘اسرائیلی ریاست کی کوئی گنجائش نہیں ‘50ہزار فلسطینیوں کی شہادت پر مسلم حکمرانوں کی خاموشی سنگین جرم ہے‘قائداعظم نے اسرائیل کو ناجائز بچہ اورعلامہ اقبال نے عربوںکے سینے میں زہر میں بجھا ہو اخنجر قرار دیا‘ حماس اسلام دشمنوں کی نظر میں دہشت گرد ہے، ہماری نظر میں نہیں ‘یہودیوں کے ہر کام میں عالمی طاقتیں برابر کی شریک ہیں۔ان خیالات کا اظہار امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن ،جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اورصحافی حامد میر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’کیا فلسطین کا ایک ریاستی حل ہی وقت کی آواز ہے؟‘‘ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ فلسطین کے مسئلے کو 2 ریاستی حل کے ذریعے حل نہیں کیا جاسکتا‘ فلسطین کا ایک ریاستی حل ہی وقت کی آوازہے‘ اس سے انحراف فلسطینیوں سے غداری ہے‘ اسرائیلی ریاست کسی صورت قابل قبول نہیں ہے‘ ہمیں صرف فلسطین کی آزاد ریاست کی بات اور مدد کو بڑھنا ہے ‘ یہی قائداعظم کا فیصلہ تھا‘ قائد نے اُس مشکل وقت میں فلسطین اسٹیٹ نعرہ لگایا جب پاکستان میں معاشی صورتحال تباہ کن تھی اور ایک نئے ملک میں کاغذ کے لیے پن کے بجائے ببول کے کانٹے کا استعمال کیا جاتا تھا‘آج ہمارے حکمرانوں کا یہ کہنا ہے کہ ملک کی معاشی حالت تباہ ہو رہی ہے‘ حکمرانوں کا کہنا ہے کہ ہم یہ نہیں کر سکتے اور وہ کچھ کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے اجازت کی ضرورت ہو گی لیکن 1948ء میں قیام اسرائیل کے وقت پاکستان کے حکمرانوں نے ایک بہادری کا فیصلہ کیا ، اس کے بر عکس آج پورے عالمِ اسلام کے حکمران 2 اسٹیٹ کے قیام کو مشرقِ وسطیٰ میں قیام امن کا حل بتا رہے ہیں لیکن یہ حل تھا اور نہ ہے ۔ ’’علامہ اقبال نے اسرائیلی ریاست کے قیام کے وقت کہا تھا کہ یہ عربوںکے سینے میں زہر میں بجھا ہو اخنجر ہے‘‘اور وقت نے ثابت کیا کہ ایسا ہی ہے۔ امیر جماعت نے کہا کہ ہمیں تمام اسلامی ممالک کے سربراہ کا اجلاس بلانا چاہیے‘ ہمیں ان ممالک سے بھی بات کرنی چاہیے جو اسرائیلی مظالم کے خلاف ہیں اور عالمی عدالت انصاف سے نیتن یا ہو کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرانے کی کو شش کر رہے ہیں‘ ہم اسرائیل کو ریاست تسلیم نہیں کرتے یہ ہی قائدا عظم کی پوزیشن تھی، ہم اسرائیل کے ایک انچ کو بھی تسلیم نہیں کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اسلامک سمٹ بلائی جائے جس میں اسلامی ممالک کی افواج کے سربراہان کو بھی بلائیں‘ اسرائیل بچوں اور خواتین کو شہید کر رہا ہے، خیموں پر حملے کر رہا ہے‘ اقوام متحدہ باقی چیزوں پر ایکشن لیتا ہے‘ فلسطین اورکشمیرکا مسئلہ حل نہیں کراتا۔ امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ وائٹ ہاؤس کے باہر احتجاج ہوسکتا ہے‘ پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ احتجاج کے لیے امریکی سفارتخانے کی طرف نہ جائیں ورنہ امریکا ناراض ہوجائے گا‘ ہمیں اپنے رویوں پر بھی غورکرنے کی ضرورت ہے۔ جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ فلسطین کے حوالے سے کون سے 2 ریاستی حل کی بات کی جا رہی ہے‘ اسرائیل کے ناسور کا فیصلہ 1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے کیا تھا، قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو مغرب کا ناجائز بچہ کہہ کر پکارتے تھے‘ جمعیت علما اسلام 2 ریاستی حل کی حمایت نہیں کرے گی‘ 2 ریاستی حل کا جواز نہ شرعی، نہ سیاسی اور نہ جغرافیائی طور پر ممکن ہے‘ اب تک غزہ میں تقریباً 50 ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں‘ امت نے ایک سال کے دوران جس بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے وہ جرم ہے‘ امت کی بے حسی کے جرم میں پاکستان بھی برابر کا شریک ہے‘ کیا ہمیں اس کا احساس ہے؟ مذمت سے فلسطینیوں کے دکھوں کا ازالہ نہیں ہوگا‘ فلسطینی بھائیوں کو زبانی جمع خرچ کی ضرورت نہیں ہے‘ حماس اسلام دشمنوں کی نظر میں دہشت گرد ہوگی، ہماری نظر میں نہیں ہے‘ پاکستان مصر، ترکی، انڈونیشیا اور دیگر مسلم ممالک کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ حکمت عملی بنائے‘ فلسطین کا حل صرف فلسطینی ریاست میں ہے‘ اس میں اسرائیلی ریاست کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔صحافی حامد میر نے کہا کہ فلسطین کا ایک ریاستی موقف نہ صرف قائد اعظم کا تھا بلکہ یہی حکومت پاکستان کا موقف بھی کہا جا سکتا ہے‘ 2 اسٹیٹ فارمولا اوسلو ایکارڈ سے چلا آرہا ہے لیکن ابھی اسرائیل اس موقف کو تسلیم نہیں کر تا ہے‘14 دسمبر 2023ء کو برطانیہ میں اسرائیلی سفیر زیپی ہوٹو ویلی نے کھلے الفاظ میں کہا ہے کہ ’’ان کا ملک 2 ریاستی حل کو غزہ میں جنگ ختم ہونے کے بعد بھی کسی صورت قبول نہیں کرے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ خطے میں فلسطینی ریاست کے قیام کے بعد امن کیسے قائم ہو سکتا ہے؟ ‘اسرائیل ایک بات جانتا ہے اور پوری دنیا کو بھی یہ جان لینا چاہیے کہ فلسطینی اسرائیل کے ساتھ اپنی ریاست قائم نہیں کرنا چاہتے تھے جس طرح آج بھی فلسطینی اسرائیلی ریاست کے بغیر اپنا نقشہ اور نعرہ اونچی آواز میں پیش کر رہے ہیں کہ وہ ‘من النہر الی البحر’ اپنی ریاست چاہتے ہیں۔ صیہونی سفیر نے بتایا کہ یہی ہمارا موقف ہے کوئی فلسطینی ریاست نہیں ہو سکتی ہے ۔ یہ وہ حالات ہیں جس کی بنیاد پر امریکا کچھ نہیں کر سکتا ہے۔ امریکا نے بھی اب تک یہی کہا ہے کہ وہ 2 ریاستی حل چاہتا ہے لیکن حقیقت میں وہ اس حل کے لیے اوسلو معاہدے کے سوا کچھ نہیں کر سکا ہے‘ اب آپ خود ہی دیکھ لیں‘ ایک سال کے دوران درجنوں مرتبہ امریکا یہ کہہ چکا ہے کہ جنگ بندی قریب ہے لیکن ہر آنے والا دن جنگ کو قریب سے قریب تر کر رہا ہے۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال کو معلوم تھا کہ اسرائیل کیا کر رہا ہے اور ہر کام میں عالمی طاقتیں اسرائیل کی مدد کر رہی ہیں۔