ہر ماورائے آئین کام ختم ہونا

302

چیف جسٹس پاکستان جناب جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ ملک میں بہت سے کام ماورائے آئین ہو رہے ہیں، ان کے یہ ریمارکس ڈیمز فنڈز کیس میں ہیں اور یہ معمول کے ریمارکس ہیں لیکن ان ریمارکس سے پاکستان میں آئین سے ماورا اقدامات کی تاریخ نظروں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ہمارے حکمرانوں، جرنیلوں اور اسٹیبلشمنٹ نے آئین کو اس قابل نہیں چھوڑا کہ اس کے مطابق سارے کام ہوسکیں ،اس کام میں ہمیشہ عدلیہ کی مدد بھی شامل رہی ہے۔ کبھی 90 دن کی توثیق کبھی مارشل لا ضابطوں کی توثیق عدلیہ ہی نے کی ہے۔ زیر بحث مقدمہ اس بارے میں ہے کہ عدالت فنڈز رکھ سکتی ہے یا نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ جب عدالتوں میں عجیب و غریب چیزیں ہورہی ہوتی ہیں تو کوئی نہیں بولتا ، غالبا ان کا اشارہ وزیر اعظم اور چیف جسٹس ڈیم فنڈ نام رکھنے کی جانب تھا ، اوریہ اعتراض اس وقت نہیں اٹھایا گیا۔اگر کسی نے اٹھایا تو اسے سنا نہیں گیا۔ہمارے ملک کا کوئی ایک مسئلہ تو ہے نہیں کہ اس کی وجہ سے چیزیں غلط ہورہی ہیں ، ہر طرف خرابی ہے۔عدالتوں کے فیصلوں اور نظیروں کا شکوہ تو وہ پہلے کرچکے ہیں کہ عدالتی فیصلوں کی نظیروں نے آئین کا حلیہ بگاڑدیا ہے۔ملک کا بنیادی مسئلہ ہی یہ ہے ، نظریہ ضرورت نے ملک پر نصف صدی کے لگ بھگ حکمرانی کی جس کا آئین سے کوئی تعلق نہیں، اگرچہ نظریہ پہلی مرتبہ غیر آئینی قرار دیکر مسترد کردیا جاتا تو پاکستانی قوم بہت سے بحرانوں سے بچ جاتی۔بدقسمتی سے یہی نظریہ ضرورت بار بار زندہ کیا گیا۔ جہاں تک بہت سے کام ماورائے آئین ہونے کی بات ہے تو سب ہی کچھ آئین کے منافی نکلے گا۔اس ملک میں جمہوریت کو آئین کی ٹوپی پہناکر چلایا جارہا ہے۔پورا انتخابی نظام صرف آئینی شقوں کی خانہ پری ہے ورنہ سب کچھ یرغمال ہے ،بھٹو کی دھاندلی سے لے کر نواز شریف کے رات گیارہ بجے فتح کے اعلان اور آرٹی ایس بیٹھ جانے اور اب فارم سینتالیس کی پارلیمان اور حکومت یہ سب آئین کے نام پر غیر آئینی اقدامات ہیں۔ہر غلط عمل کو آئین کی ٹوپی پہنادی گئی ہے۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات کا کیس ہو یا مئیر کے انتخاب کا۔ اب فارم سینتالیس کا کیس سب کچھ سپریم کورٹ کے سامنے ہے لیکن اسے کوئی ماورائے آئین نہیں کہتا۔ اس ملک کا آئین کہتا ہے کہ سودی نظام ختم کیا جائے اور عدالت عظمی کے فیصلے بھی موجود ہیں لیکن سودی نظام ماورائے آئین جاری ہے ، آئین پاکستان اس ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا تقاضا کرتا ہے، لیکن یہاں غیر اسلامی قوانین نافذ ہیں آئین اور عدالت عظمی دونوں اردو کو سرکاری زبان قرار دیتے ہیں لیکن سرکار میں انگریزی ماورائے آئین چل رہی ہے۔ہمارا تعلیمی نظام ، معاشی نظام بھی ماورائے آئین ہے۔ حتی کہ خارجہ پالیسی بھی بسا اوقات ماورائے آئین اقدامات کرتی ہے چیف جسٹس محض ریمارکس پر اکتفا نہ کریں اس ملک سے ہر ماورائے آئین کام کا خاتمہ کردیں ،خصوصا آجکل ایکسٹینشن کی بیماری بہت پھیلی ہوئی ہے ، وہ اپنی آرمی چیف اسمبلیوں اور اہم عہدوں پر ایکسٹینشن کو تو نیا حکم جاری کرکے یکسر ممنوع قرار دیدیں، وہ یہ کام زیادہ آسانی سے کرسکتے ہیں کیونکہ اس مرتبہ ایکسٹینشن میں ان کا نام بھی آرہاہے اور آئینی عدالت کے بارے میں بھی فیصلہ دیں کہ وہ آئینی ہے یا ماورائے آئین۔جب کوئی غلط کام ہورہا ہے تو بولنے اورروکنے کا وقت بھی یہی ہے۔یہ اور بات ہے کہ ہمارے ملک میں یہ غیر آئینی بلکہ غیر اخلاقی کام بھی ہوتا ہے کہ جس چیز میں ہمارا فائدہ ہے وہ عین آئینی اور جائز ہے اور دوسرے کو فائدہ ہورہا ہو تو غلط ہے۔سارے ماورائے آئین اقدامات کی جڑ یہی نفسیات ہے۔