دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں‘ مگر طاقت پرواز رکھتی ہے
اقبال نے کس کے لیے کہا ہے؟ اقبال کا مخاطب کون ہے؟ مسلم امہ یا مسلم امہ کے حکمران؟ دونوں میں سے کوئی ایک بھی ابھی تک فیصلہ نہیں کرسکا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے دوسری جانب غزہ پر اسرائیل کے حملے کو آج ایک سال کا عرصہ ہوگیا ہے، لیکن جنگ بند ہونے کے بجائے ایران اور لبنان تک پھیل رہی ہے۔ اسرائیل کی جارحیت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہ معصوم فلسطینی بچوں، خواتین اور بوڑھوں کی بہت بڑی تعداد شہید کرنے کے بعد حماس کے قائد اسماعیل ہنیہ اور حزب اللہ کے راہنماء حسن نصراللہ کو بھی شہید کرچکا ہے۔ اسرائیلی فوج غزہ کے بعد لبنان پر بھی حملہ آور ہوچکی ہے غزہ کے بعد جنوبی اور مشرقی لبنان میں اسرائیلی بمباری کی وجہ سے ہزاروں خاندان بے گھر ہو گئے، ہزاروں لبنانی شہریوں نے اپنے گھر چھوڑ کر محفوظ مقامات کی تلاش شروع کر دی ہے۔ غزہ کے بعد خطہ میں تباہی پھیلانے کا یہ نیا محاذ ہے جو اسرائیل نے کھول دیا ہے جس پر پاکستان کے عوام میں تشویش بڑھ رہی ہے اور مسلم امہ کے علاوہ عالمی برادری تشویش پائی جاتی ہے عرب ریاستوں نے لبنان حملے پر مذمت کا اظہار کیا ہے لیکن اسرائیل نے ازلی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ لبنان پر حملے جاری رہیں گے اندیشہ ہے کہ اسرائیلی جارحیت سے پورے مشرق وسطیٰ میں افراتفری پھیلے گی، اسرائیل اقوامِ متحدہ اور اس کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کی اپیل پر بھی توجہ نہیں دے رہا۔ اسرائیل کی جارحیت سے فلسطین، شام، لبنان اور ایران کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان اس صورت حال میں کیسے خود کو الگ تھلگ رکھ سکتا ہے؟ یہ ہمارے اب ممکن نہیں رہا، ہم براہ راست بھی بلواسطہ بھی اس جنگ سے متاثر ہورہے ہیں۔ مسلم امہ کے علاوہ جی سیون ممالک نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی کے نتائج ناقابل ِ تصور ہوں گے، یہ خطے کو ایک بڑے تنازع میں گھسیٹ سکتی ہے۔
صورت حال اس قدر خراب ہورہی ہے کہ اسرائیل اور حزب اللہ میں بڑھتے تنازعے کے باعث پینٹاگون نے مشرق وسطیٰ میں اضافی امریکی فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے مشرق وسطیٰ میں پہلے ہی 40 ہزار سے زائد امریکی اہلکار موجود ہیں۔ امریکی صدرجوبائیڈن نے مشرق وسطیٰ میں فورسز کو الرٹ کرنے کا حکم دیا ہے کہ پینٹاگون اسرائیلی حمایت کے لیے موجود افواج کی جنگی تیاریوں کو یقینی بنائے۔ پینٹاگون کو 40 ہزار سے زائد امریکی فوجیوں کو الرٹ رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ امریکی صدر کے بیان سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ امریکا ایک بار مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کے شعلے بھڑکا رہا ہے۔ اسرائیل کو غزہ، لبنان اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر علاقوں میں دہشت گردی کے لیے اسلحہ اور گولا بارود مہیا کر کے امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک صاف طور پر یہ اعلان کررہے ہیں کہ وہ کسی قاعدے ضابطے کو نہیں مانتے اور وہ دنیا میں امن کے قیام کے بھی خلاف ہیں۔ عالمی عدالت ِ انصاف میں جہاں اسرائیل کے خلاف کارروائی کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں وہیں امریکا اور اس کے ان حواریوں کے خلاف بھی کارروائی کی بات ہونی چاہیے جو اسرائیل کو دہشت گردی کے ساز و سامان فراہم کررہے ہیں۔ سب سے افسوس ناک اور کمزور کردار مسلم ممالک کا ہے جو مذمتی بیانات سے آگے بڑھ کر کوئی ٹھوس اور عملی اقدامات نہیں کررہے۔
حالات و واقعات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جب تک مسلم ممالک اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنے والے ممالک کے خلاف ٹھوس کارروائی نہیں کریں گے تب تک اسرائیلی دہشت گردی کا راستہ نہیں روکا جاسکتا۔ امریکا اور اس کے حواری چاہتے ہیں کہ دہشت گرد اسرائیل کے ذریعے پورے مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کا دائرہ پھیلایا جائے۔ اسماعیل ہنیہ اور حسن نصراللہ کو شہید کر کے یہ عندیہ دیا گیا ہے کہ امریکا اور اس کے حواری خطے کو پرامن اور مستحکم نہیں ہونے دینا چاہتے۔ اب بھی اگر مسلم ممالک کے حکمران محض بیانات ہی جاری کرتے رہے تو پھر وہ وقت دور نہیں جب ایک ایک کر کے یہ سب امریکا کی پھیلائی ہوئی دہشت گردی کا نشانہ بنیں گے۔ اسرائیل کے بڑھتے قدموں سے لگ رہا ہے کہ اس کے عزائم خاصے خطرناک ہیں، سال تک غزہ میں تباہی برپا کرنے سے اس کی تسلی نہیں ہوئی اسی لیے تو اس نے اب لبنان اور کسی حد تک ایران کا رخ کر لیا ہے۔ اس نے لبنان میں پہلے پیجر اور واکی ٹاکی کے ذریعے دھماکے کیے اور اب باضابطہ فضائی حملے شروع کر دیے ہیں۔ صورت حال ایسی بن رہی ہے کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت اب تک اسرائیل کا راستہ نہیں روک سکی ہے، کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا، کسی قسم کی جنگ بندی کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ اس نے غزہ کو کھنڈر بنا دیا لیکن اس کے آگے بند نہیں باندھا جا سکا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اسرائیل نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی، جنگی جرائم کا مرتکب ہوا، کوئی مسجد، اسکول، اسپتال، گھر اس کے عتاب سے محفوظ نہیں رہا۔ بچے، بوڑھے اور خواتین کو بے دریغ شہید کیا لیکن کوئی بھی اس کو کسی کٹہرے میں کھڑا نہیں کر سکا۔ عالمی عدالت انصاف کا عبوری فیصلہ، اس کی تنبیہ بھی اس کا راستہ نہیں روک سکی۔ دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہوئے جو کہ اب بھی جاری ہیں، اقوام متحدہ کی قرادادیں منظور ہوئیں لیکن اسرائیل پر اِس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس کے حمایتی ممالک دبے الفاظ میں اس کی مخالفت تو کرتے ہیں لیکن اس کا ساتھ دینے سے گھبراتے بھی نہیں ہیں۔
کیا پوری دنیا اسرائیل کے سامنے بے بس ہو چکی ہے، اس کا سامنا کرنے سے کترا رہی ہے۔ آج اس جنگ کا دائرہ بڑھ رہا ہے، اس جنگ کی وجہ سے بہت تباہی ہو چکی ہے، بہت وقت گزر چکا ہے، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی افسوس کا اظہار تو کر رہے ہیں، عملی طور پر کوئی قدم اُٹھا کر دنیا کو اپنی اہمیت کا احساس دلائیں۔ عالمی برادری کو متحد ہو کر اسرائیل کے بڑھتے قدم روک لینے چاہئیں، ہر قیمت پر اس کو جنگ بندی پر مجبور کرے، اگر وہ ایسے ہی من مانی کرتا رہا، ڈھٹائی سے اپنے ناپاک عزائم پر ڈٹا رہا تو دنیا کا کوئی بھی ملک اِس سے محفوظ نہیں رہے گا، پھر امن کا قیام ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔ یہ بات عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے کہ صہیونیوں نے اسرائیل کے نام سے مشرقِ وسطیٰ میں ایک غاصب ریاست قائم کر رکھی ہے جس نے فلسطینیوں کے علاقوں پر قبضہ کر کے انہیں ان کے جائز حقوق سے محروم کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ صہیونیوں کی طرف سے فلسطینیوں کے حقوق پامال کیے جانے کے بارے میں اقوامِ متحدہ کے کئی خصوصی اجلاس ہوچکے ہیں، سلامتی کونسل میں کئی بار یہ مسئلہ زیر بحث آچکا ہے، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سمیت مختلف بین الاقوامی ادارے بارہا اس معاملے پر بات کرچکے ہیں لیکن اس کے باوجود گزشتہ پون صدی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔ امریکا ہر موقع پر غاصب اسرائیلی ریاست کی مدد کر کے اس کے ہاتھ مضبوط کرتا ہے۔ یورپی ممالک بھی اس صورتحال پر جس ردعمل کا اظہار کررہے ہیں ان سے اس کے علاوہ اور کوئی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔ اب اصل امتحان مسلم ممالک اور ان کے حکمرانوں کا ہے کہ وہ اس صورتحال میں فلسطین اور اس کے مظلوم شہریوں کی حمایت کے لیے کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ طالبان کی عبوری حکومت نے مشرقِ وسطیٰ میں نئی صورتحال پیدا ہونے کے بعد ایران، عراق اور اردن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انہیں اسرائیل کے لیے راستہ فراہم کریں۔ ہم فلسطین جانے کے لیے تیار ہیں۔ مسلم ممالک کی جانب سے اب تک جو ردعمل سامنے آیا ہے اس میں ایران نے کہا ہے کہ ہم فلسطین اور مقبوضہ بیت المقدس کی آزادی تک فلسطینی مزاحمت کاروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مصر اور ترکی نے صورتحال کے سنگین نتائج سے خبردار کرتے ہوئے تحمل اختیار کرنے پر زور دیا ہے جبکہ سعودی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ فلسطین کی غیر معمولی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور فریقین سے تشدد اور لڑائی کو فوری روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ قطر نے صورتحال کی مذمت کرتے ہوئے اس کی تمام تر ذمے داری اسرائیل پر عائد کی ہے اس سلسلے میں عمان نے بین الاقوامی برادری سے عالمی قوانین کے تحت کشیدگی رکوانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے مشرقِ وسطیٰ کی صورت حال پر ردعمل دیا گیا ہے مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تشدد سے دل شکستہ ہے‘ بلاشبہ حالیہ واقعات مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن و ریاستی حل میں موجود ہے 1967ء سے پہلے والی سرحدوں کے مطابق قابل عمل خود مختار ریاست فلسطین قائم ہونی چاہیے۔ مشرقِ وسطیٰ میں ابھرتی ہوئی صورتحال پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی صورتحال کی انسانی قیمت پر تشویش ہے ۔
پاکستان کو اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کے منصفانہ جامع اور دیرپا حل کا اعادہ کرنا چاہیے 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر ایک قابل عمل، خود مختار اور ملحقہ ریاست فلسطین قائم کی جائے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہے اسرائیلی ریاست کا وجود روزِ اول ہی سے عالمی امن کے لیے خطرہ رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرانے کے لیے بھرپور کردار ادا کرے ورنہ اسرائیلی ریاست اور غاصب صہیونیوں کے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف مسلسل بڑھتے ہوئے اقدامات کسی ایسی صورتحال کو جنم دے سکتے ہیں جو عالمی جنگ کا باعث بھی بن سکتی ہے اور ایسی صورت میں معاملات کسی کے بھی ہاتھ میں نہیں رہیں گے۔