جلتے توے پر مجوزہ آئینی ترامیم

275

جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ جب سے اسرائیل کے کلیدی اخبارات نے نیازی کی رہائی کے لیے مہم چلانی شروع کی اسی وقت سے آئین کو تہہ و بالا کرنے کی ترامیم سامنے آنی شروع ہوئی ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اسرائیل کے غلام تینوں سیکولر جماعتوں میں بدرجہ اتم موجود ہیں جس میں دو رائے بھی نہیں۔ ہمارے خیال میں ترمیم کا مجوزہ مسودہ بھی اسرائیل ہی سے آیا ہے۔ کیونکہ عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سال دور اقتدار میں پاکستان اور اسرائیل کے درمیان خفیہ سفارتی سرنگ کھود دی ہے جس کا ایک وفد احمد قریشی کی سربراہی میں ببانگ دہل اسرائیل کا دورہ بھی کر چکا ہے۔ اب نہ جانے اس وفد میں کتنے قادیانی تھے۔ مسلم لیگ ن کا وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ تو جیسے پاکستان میں اسرائیل کا سفیر بنا ہوا ہے۔ ’’اسرائیل کا ایک اشارہ… حاضر حاضر لہو ہمارا‘‘ والی کیفیت میں رہتا ہے۔ نیازی دور میں پوری پی ٹی آئی کابینہ اس کے چوٹی کے رہنما سب کے سب اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کھلم کھلا حمایت کرتے نظر آئے جن کو ن لیگ اور پی پی پی کی حمایت حاصل رہی۔ موجودہ بلکہ مجوزہ آئینی ترمیم کے لیے جو بھگدڑ مچی ہوئی ہے، اس نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔

1۔ اتنی عجلت بلکہ بھگدڑ کا مظاہرہ کیوں۔

2۔ آخر ان ترامیم کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی۔

3۔ موجودہ ججوں کی عمر میں ایک دم تین سال کی چھوٹ دینے سے کتنے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ اس پر شاید غور کرنے کی مہلت نہیں دی گئی۔

4۔ اس ساری مہم جوئی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ اندرونی یا بیرونی۔

5۔ ان اصلاحات کا فائدہ کس کس کو پہنچے گا۔

6۔ کیا واقعی یہ اصلاحات عمران خان کو دبوچنے کے لیے کی جا رہی ہیں بظاہر ایسا ہی لگ رہا ہے مگر شاید ایسا ہے نہیں…!

7۔ اگر واقعتا یہ عمران خان کے خلاف ہے تو عمران خان اینڈ کمپنی بلکہ نچلی سطح تک کسی کے چہرے پر پریشانی کے آثار تو دور کی بات وہ تو کلی طور پر مطمئن و شاد نظر آرہے ہیں بلکہ عمران خان کے نوکر خوشی خوشی خورشید شاہ کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہورہے ہیں۔

8۔ یہ کیسی آئینی ترمیم ہورہی ہے کہ اپوزیشن تو رہی ایک طرف خود وزیر قانون کو قومی اسمبلی اجلاس سے ایک گھنٹہ قبل مسودے کی کاپی دی جارہی ہے۔ فضل الرحمان سے حمایت کا ووٹ بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر میاں شہباز شریف ان کو بھی مسودے کی کاپی نہیں دینا چاہتے، بھلا اندھے کنویں میں آپ کے کہنے سے کون چھلانگ لگا دے گا۔

9۔ کچھ چیزیں باہر بھی نکل رہی ہیں مثلاً ججوں کا تبادلہ۔ جج کا عہدہ ہمیشہ ہی سے معزز مانا گیا ہے اور ملک کیا بیرون ملک بھی اور ہر ہر معاشرے میں جج یا منصف کو جْداگانہ رتبہ حاصل ہوتا ہے۔ اگر جج کی حیثیت مجروح ہوتی ہے تو معاشرے کی اعلیٰ اقدار کو بھی ٹھیس پہنچے گی۔ ابھی تک یہ تو نہیں معلوم ہوا کہ ججوں کے تبادلے کا کیا طریقہ کر متعین کیا گیا ہے۔ کن کن وجوہات پر ایک ہائی کورٹ کے جج صاحب کو کسی دوسری ہائی کورٹ میں کن کن گناہوں کی پاداش میں تبادلہ کیا جائے گا۔ کیا جج کو اس عمل کی پیشگی اطلاع دی جائے گی مع وجوہات کہ ان وجوہات کی بنا پر آپ کو فلاں ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔ کیا پانچوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان بھی اسی عتابی قانون کے نرغے میں رہیں گے اور وہ بھی ٹرانسفر کیے جا سکیں گے۔ بہر حال صورتحال کچھ بھی ہو مگر شہباز حکومت کا یہ اقدام کوئی قابل تعریف اور ملک و قوم کے لیے اچھے شگون کی علامت بن کر اپنے اثرات ظاہر نہ کر سکے گا۔

10۔ بھلا جس ملک کی عدالتوں کے سینئر جج تبادلے کے جلتے توے پر بیٹھے ہوں وہ کسی بھی مقدمے میں قانون کے مطابق انصاف کے بھرپور تقاضوں کے مطابق فیصلے کیسے کریں گے۔ دوسرا خوف یہ منڈلاتا رہے گا کہ اگر حکمرانوں کی مرضی کا فیصلہ نہیں دیا تو تبادلہ پکا، ایسے میں کون جج ہمیشہ قربانی کا بکرا بنے رہنے کو تیار رہے گا یہ جج نہ ہوا پولیس والا ہوگیا آج اس تھانے میں تو کل اس تھانے میں۔
یہی مشکوک رویہ قوم کو سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے ہم نے اس سے قبل اپنے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ حکمرانوں کا یہی وتیرہ رہا ہے سجا دکھا کہ کھبا مارتے ہیں، یہاں بھی صورتحال اس سے مختلف نظر نہیں آرہی۔