ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

255

اے ابن آدم اب ہمارے ملک میں جو ترقیاتی کام ہورہے ہیں وہاں معیار کی کوئی اہمیت نہیں اوپر والے تو کہتے ہیں یہ ہمارا کمیشن کتنا ہوگا موٹر وے پر بھاری کمیشن میاں صاحب اینڈ کمپنی ماضی میں وصول کرکے ملک سے باہر بھیج چکی ہیں۔ ایک خالی میاں صاحب کو غلط کہنا بھی درست نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں تو جس کو موقع مل جائے وہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیتا ہے، پیپلز پارٹی اور متحدہ کے لوگ بھی اس طرح کی فہرست میں شامل ہیں، ابھی زیادہ دن پرانی بات نہیں ہے مرحوم عامر لیاقت جو جہانگیر روڈ والے حلقے سے ایم این اے بنے تھے انہوں نے اپنے فنڈز سے خود کھڑے ہو کر دن رات وہاں کام کروایا تھا۔ ہمارے صحافی دوست کامران وجاہت اْن کے اس ترقیاتی کام میں اْن کی معاونت کررہے تھے۔ کامران کے والد سید وجاہت علی مرحوم کا شمار پاکستان کے سینئر صحافیوں میں ہوتا تھا۔ خیر آج اخبار میں جب یہ خبر پڑھی تو مجھے مرحوم عامر لیاقت یاد آگئے۔ مرحوم کو بھی ٹھیکیدار نے چونا لگا دیا تھا۔ خبر یہ تھی کہ جہانگیر روڈ کا غیر معیاری کام کرنے والی کمپنی کو سرجانی ٹائون میں کام مل گیا ٹھیکیدار کمپنی کو 9 کروڑ 80 لاکھ 76 ہزار 495 روپے تخمینے کا کام 20 فی صد کم ریٹ کی بولی دینے پر دیا گیا ہے۔ اب یہ کمپنی سرجانی ٹائون میں روڈز، فٹ پاتھ، پانی اور سیوریج لائنوں کی تعمیر اور بحالی کا کام کرے گی۔ یہ ٹھیکہ اْن کو 7 کروڑ 84 لاکھ 61 ہزار 250 روپے میں دے دیا گیا ہے۔ انفرا اسٹرکچر کی امپرومنٹ اور بحالی مین روڈ، فٹ پاتھ، پانی کی سپلائی اور سیوریج کی بحالی کے کام شامل ہیں۔ امپرومنٹ کا کام آپ لوگوں کی سمجھ میں آتا ہے، انفرا اسٹرکچر تو موجود ہوتا ہے بس اْس پر ایک پلاسٹر کا ہاتھ مار کر اوپر سے رنگ کر دیا جاتا لوگوں کو محسوس ہوتا ہے کہ کوئی نیا کام ہوا ہے۔ روڈ موجود ہیں بس اْس پر ڈامر کی ایک نئی Layer ڈال دی جائے گی، چند دن تو یہ بہت اچھا لگے گا اگر ایک بارش ہوگئی تو یہ روڈ بیٹھ جائے گی۔ واضح رہے جہانگیر روڈ کو مذکورہ کمپنی نے تعمیر کیا تھا اور اس کے اگلے ہی روز سڑک بیٹھ گئی تھی جس پر اْس وقت کے DG کے ڈی اے نے تحقیقات اور کنٹریکٹر اور کام کروانے والے انجینئرز کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا جس پر اْس کمپنی سے دوبارہ کام کروایا گیا۔

تماشے تو پورے شہر میں ہورہے ہیں۔ کمشنر کراچی روزانہ کی بنیاد پر ہر چیز کی ایک نرخ نامہ جاری کرتے ہیں مگر ایک چیز بھی اس نرخ پر فروخت نہیں ہوتی، کوئی دکاندار ہو یا ٹھیلے والا اس کے پاس لسٹ نظر نہیں آئے گی۔ کمشنر صاحب تو ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر عوام کی خدمت کررہے ہیں مگر ان کے ماتحت افسران بھی کمروں سے باہر نہیں نکلتے۔ چھری صرف عوام کی گردن پر چل رہی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ مرغی والا، گوشت والا، سبزی و پھل والا جب من مانے ریٹ پر چیز فروخت کررہا ہے تو گاہک کو معیاری اشیا تو فراہم کرے، آدھے سے زیادہ شہر میں پریشر کا گوشت فروخت ہورہا ہے، انسانی جانوں سے کھیلا جارہا ہے۔ مرغی کو سوڈے کے پانی سے دھو کر فروخت کرتے ہیں جس سے وزن بڑھ جاتا ہے۔ آدھے شہر سے زیادہ مرغی فروش دونمبری کرکے عوام کو لوٹ رہے ہیں، ناقص دودھ خالص دودھ کے ریٹ میں فروخت ہورہا ہے۔ محکمہ صحت نے کتنی دکانوں پر چھاپا مارا، کتنے دودھ والوں کا چالان کیا، مرغی والوں اور گوشت والوں کی دکان پر کسی نے چھاپا مارا یہ سارے کام حکومت سندھ اور کراچی کی انتظامیہ کی ایس او پی ہے مگر کوئی ایک ادارہ بھی اپنی ایس او پی کے مطابق کام نہیں کررہا ہے۔ ہماری پولیس کا کام عوام کو تحفظ دینا ہے مگر شہر میں تو روزانہ کی بنیادوں پر وارداتیں ہورہی ہیں، عوام مر رہے ہیں۔

کراچی میں رواں برس لوٹ مار اور دیگر وارداتوں میں 471 افراد قتل ہوچکے ہیں، ڈکیتی کی 3 ہزار 251، گاڑیوں کی چوری کی 12 ہزار وارداتیں ہوچکی ہیں۔ چن چی رکشہ والوں کی بدمعاشی کسی کو نظر نہیں آتی، ٹریفک پولیس کی موجودگی میں یہ چھوٹی عمروں کے لڑکے جن کا شناختی کارڈ تک نہیں بنا وہ یہ رکشے چلا رہے ہیں۔ F-12 کے نام سے ایک رکشہ نیو کراچی سے چلتا ہے اس قدر تیز آواز میں گانے چلاتے ہیں کہ برابر والے مسافر کی آواز نہیں آتی۔ یہ ایک غیر قانونی عمل ہے مگر جب ملک میں قانون نہ ہو تو پھر ملک کا اور شہر کا یہی حال ہوتا ہے جو آج کراچی کا ہے۔ کاش کہ کراچی کی پولیس مقامی ہوتی، انتظامی مقامی ہوتی، اداروں میں مقامی لوگ بھرتی ہوتے تو آج شہر کا یہ حال نہیں ہوتا۔ بلدیاتی الیکشن میں جماعت اسلامی کو لوگوں نے پسند کیا، کراچی والے حافظ نعیم الرحمن کو میئر کراچی کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے مگر پیپلز پارٹی نے اپنا قانون بنا کر عوام کے ووٹ پر ڈاکا مارا اور اپنا میئر لے کر آگئے جب سے آج تک بس تماشا ہی ہورہا ہے، آج نہیں تو کل پورا پاکستان جماعت اسلامی کے ساتھ کھڑا ہوگا۔