پاکستان کے سفارت خانے، ابوظہبی نے 03 اکتوبر 2024 کو جارج ٹاؤن یونیورسٹی (قطر کیمپس) میں تاریخ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر پروفیسر ڈاکٹر ولید زیاد کے ایک سیشن کی میزبانی کی، جس کا عنوان تھا خواتین اسکالرز/سینٹس آف دی افغان ایمپائر پشاور سے بخارا تک۔ سیشن میں کئی سفارت کاروں، پیشہ ور افراد اور پاکستانی کمیونٹی کے سرکردہ افراد نے شرکت کی۔
ڈاکٹر ولید زیاد کا پرتپاک خیرمقدم کرتے ہوئے سفیر پاکستان محترم جناب فیصل نیاز ترمذی نے برصغیر اور وسطی ایشیا کی عظیم مسلم خواتین سکالرز پر تحقیقی کام کے لیے ڈاکٹر زیاد کی علمی خدمات اور عظیم کاوش کو سراہا۔ انہوں نے ڈاکٹر زیاد کی لگن اور جذبے کی تعریف کی جس میں مختلف ممالک کے مشکل علاقوں کا وسیع سفر شامل تھا۔ جناب ترمذی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ متنوع قومیتوں کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے سفارت خانوں کو علم، فن، موسیقی اور ثقافت کے اشتراک کا کردار ادا کرنا چاہیے۔پروفیسر ڈاکٹر ولید زیاد نے پاکستان، ازبکستان، افغانستان، وسطی ایشیا اور ترکی کے سینکڑوں افراد کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ان کی آنے والی کتاب” Sufi Masters of the Afghan Empire: Bibi Sahiba and Her Sacred Networks” کی تحقیق میں ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اپنی کتاب کے تعارف میں، انہوں نے اپنی پہلی طالبہ بی بی صاحبہ کلاں کو افغانستان، بلوچستان اور سندھ کے ممتاز عالم اور صوفی خواجہ سیف اللہ کے جاری کردہ ڈپلومہ کی سطریں شیئر کیں۔ جس میں اسے اپنی عمر کی سب سے بڑی اور قابل ذکر شخصیت کے طور پر پہچانا۔ اس نے اسے شمال مغربی پاکستان اور افغانستان میں واقع سب سے اہم صوفی نیٹ ورک کی پہلی خاتون وارث بنا دیا جس کی شاخیں مغربی چین تک پھیلی ہوئی ہیں۔ وسیع تحقیقی کام میں پروفیسر ولید کو دس سال لگے اور تین ممالک بشمول پاکستان، افغانستان اور ازبکستان میں 140,000 کلومیٹر سے زیادہ کا سفر طے کیا۔ اپنے لیکچر میں، پروفیسر ولید زیاد نے افغان سلطنت کے دوران وسطی ایشیا کے خطے کی خواتین اسکالرز پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اپنی کتاب “The Extraordinary, Enchanted Lives of the Female Scholar-Saints of the Afghan Empire” کا ذکر کیا جس میں انہوں نے ان صوفیانہ خواتین اسکالرز کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر زیاد نے ان کے تقدس، روحانی زندگی اور اپنے ہزاروں شاگردوں کی رہنمائی کے لیے خدمات کی تصویر کشی کی۔ انہوں نے ان بزرگوں کو خراج عقیدت پیش کیا جنہوں نے اپنی زندگیاں اسلام کے لیے وقف کر دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان اولیاء کرام کی زندگی عصر حاضر کی نسل کے لیے مشعل راہ ہے۔
اختتامی کلمات میں جناب ترمذی نے کہا کہ بی بی صاحبہ کی کہانی انتہائی غیر معمولی ہے جس کا وسطی ایشیا، افغانستان، پاکستان اور ہندوستان میں بڑا اثر و رسوخ تھا۔ “یہ واقعی ایک بے حد خوشی کی بات ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر ولید زیاد کے شاندار کام کے ذریعے اس عظیم خاتون کے بارے میں خود کو روشناس کرنے کا موقع ملا۔