سماجی مفکر اور ماہر عمرانیات ای بی ٹیلر (Taylor۔EB) کا کہنا ہے کہ ’’مذب روحانی موجدات پر عقیدے کا نام ہے‘‘۔ جب ایک نسل دوسری نسل کو اپنا ثقافتی ورثہ منتقل کرتی ہے تو اس میں عقیدہ بھی شامل ہوتا ہے۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ ہر بچہ دین فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ثقافتی ماحول ہندو گھرانے میں پیدا ہونے والے بچے کو ہندو عیسائی گھرانے میں پیدا ہونے والے بچے کو عیسائی اور مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والے بچے کو مسلمان بنا دیتا ہے۔ ای بی ٹیلر کا کہنا ہے کہ ’’مذہب روحانی موجودات پر اعتقاد کا نام ہے‘‘۔ ثقافت پر مذہب حاوی ہوتا ہے ہم اگر اپنی ثقافت کا جائزہ لیں تو اسلام کے وجود سے انکاری کو بھی اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس پاکستانی ثقافت پر ملحدوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود آج بھی مذہب اسلام کے اثرات نمایاں ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں 97 فی صد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے ہماری مذہبی اقدار میں بزرگوں کا ادب، مہمان نوازی، حلال و حرام کی تخصیص، حلال کھانا، حرام سے بچنا، قربانی، ایمانداری، صبر، شکر ہمدردی، پڑوسیوں کی خبرگیری۔ اسلامی ثقافت میں سب سے پہلے قرآن مجید ہے جو کتابی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ قرآن کریم کے علاوہ مساجد، اذان، نماز، اسلامی طرز اسلوب، اسلامی تعلیمات، اسلامی معاشرت، اسلامی اذہان، اسلامی لباس، اسلامی روایات، زکوٰۃ یہ تمام اسلامی ثقافت کے مختلف پہلو ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ’’اللہ کارنگ اختیار کرو۔ اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہوگا‘‘۔ (سورۃ البقرۃ: 138)
دنیا کے کسی ملک کو بھی دیکھ لیں ملکی ثقافت پر غالب اکثریتی مذہب کی پیروی کی جاتی ہے اور ثقافت پر مذہب کا رنگ غالب ہوتا ہے۔ قریبی ہمسائے ممالک بھارت اور چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ قومیں اپنی ثقافت کی وجہ سے ترقی پاتی ہیں۔ زبان رنگ نسل قبیلے قوم برادریاں تو محض تعارف کا ایک حصہ ہوتی ہیں۔ بحیثیت مجموعی مذہب ہی ثقافت کی اساس ہوا کرتا ہے۔ ہندوانہ تہذیب و ثقافت پر مذہب کا رنگ غالب ہے۔ ان کا بچہ بچہ اپنی مذہبی رسوم و روایات سے آگاہ ہو کہ نہ ہو ان کے بین الاقوامی سطح پر منائے جانے والے تہواروں اور رسوم کے باعث ہمارا ہر طفل و پیرو جوان ان کی ثقافت سے آگاہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا ہندو اپنے تہذیبی ورثے کو بہت احسن انداز میں اپنی نئی نسل میں منتقل کررہے ہیں۔ یہ ایک قابل ِ قبول حقیقت ہے۔ اب ہم بات کرتے ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جہاں 97 فی صد مسلمان آباد ہیں۔ اصولاً تو یہاں اسلامی ثقافت ہی کو معاشرے کے ہر شعبے میں رائج ہونا چاہیے تھا لیکن ہزار سالہ انگریزی غلامی اور آزادی کے بعد امداد کے نام پر ملنے والی شرائط میں بندھی رقوم سے ہم ذہنی طور پر اب بھی غلام ہیں امریکی امداد ملتی بھی انہی کو ہے جو اپنے آپ کو آج تک ان کا غلام اور انہیں اپنا آقا تسلیم کرتے ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک جن میں پاکستان سرفہرست ہے یہاں حکومتیں بھی انہیں ذہنی غلاموں کو دی جاتی ہیں جن کی انگریزوں سے مرعوبیت عروج پر ہو۔ عوامی شعور بیدار کرنے کی جتنی تحاریک اور شعوری مہمات بنیں اور آج تک بن رہی ہیں ان پر بھی یہی غلامی ذہن رکھنے والے اذہان غالب ہیں۔
یہ ہمارے مسلم معاشرے کا المیہ ہے ان عوامی مسائل کو لے کر اٹھنے والی تحاریک میں قیام پاکستان سے لے کر اب تک اگر کوئی تحریک کامیابی کے ساتھ اپنا کام اور اپنے مشن کو جاری ساری رکھے ہوئے ہے تو وہی تحاریک ہیں جو اسلامی معاشرے میں اسلام کی ترویج کے لیے کام کررہی ہیں۔ پوری دنیا اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ اسلام نے زندگی کے ہر شعبے کے لیے اصول وضع کیے ہیں اور خود ہمارے پیغمبر نبی کریمؐ نے اپنے کردار سے ان تمام اصول و ضوابط میں جان ڈالی ہے اور نبی مہربانؐ کے بعد بھی آنے والے لوگوں نے اس مشن کی پیروی کی تو مسلمان آدھی سے زیادہ دنیا پر حکومت کرنے لگے وہ دن کے راہی اور رات کے سپاہی ہوا کرتے تھے لیکن پھر رفتہ رفتہ مسلمان اپنے مشن کو بھولتے چلے گئے پہلے غیر اسلامی ریاستوں نے جزیہ دینا بند کیا، پھر حکومتوں کی سرپرستی چھینی جانے لگی۔ پھر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ نبی کریمؐ کی پیش گوئی کہ مصداق دوسری اقوام مسلمانوں پر ایسے حملہ آور ہوں گی جیسے بھوکے دسترخوان پر اور آج اسی کیفیت سے ہم دوچار ہیں آج کوئی بھی ملک اٹھا کر دیکھ لیں خون غیر مسلم تو بہت قیمتی ہے چاہے وہ یورپ کے کسی ہم جنس پرستی کے کلب میں حملہ ہو یا ہولوکاسٹ کا من گھڑت ڈراما برسوں گزر جانے کے باوجود اس کی یاد میں تعزیتی اجلاس منعقد ہوتے ہیں لیکن خون مسلم کی ارزانی پانی سے بھی سستی ہے۔ کیونکہ پانی کے لیے بھی مہمات چلائی جاتی ہیں لیکن مسلمان کے ناحق خون پر کوئی آنکھ اشک بار نہیں ہوتی، کوئی دل نہیں پسیجتا، کوئی روح نہیں کانپتی۔ آج برما سے لے کر شام، مصر، فلسطین، عراق، بوسنیا، کشمیر و بنگلا دیش سب مسلمانوں کے خون سے رنگین ہیں کیا یہ لہوکافی نہیں ہماری آنکھیں کھولنے کو کیونکہ بقول اقبال
مسلماں کو مسلماں کردیا طوفان مغرب نے
طلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
آج ہم نے اپنا دین اسلام بھلا دیا تو لوگوں نے ہمارا وجود ہی بھلا دیا۔ کیونکہ یہ میرے ربّ کا قانون ہے کہ جو اس کی دنیا کو سجائے گا اس میں بہبود انسانی نظام نافذکرے گا اس کی نئی تحقیق و ترقی کو رائج کرئے گا اللہ تعالیٰ اس قوم کو ترقی دیں گے۔ جب مسلم ایجادات عروج پر تھیں تو یہی یورپ سیاہ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، لیکن پھر وہی یورپین اقوام نے اپنے نئے تعلیمی و تحقیقی مراکز پرکام کیا آج وہ کہاں کھڑے ہیں کہ ہم ان کا مقابلہ صرف اسلام کے اصولوں پر تو کرسکتے ہیں ورنہ تحقیق و تعلیم میں ان کا ہمارا کوئی مقابلہ نہیں مجھے کچھ دن قبل ایک برقی خط موصول ہوا جو میں اپنے قاری کی نذر کرتی ہوں پڑھیے اور سوچیے ہم آج کہاں کھڑے ہیں؟
’’جب یورپ کے چپے چپے پر تجربہ گاہیں اور تحقیقی مراکز قائم ہو رہے تھے _ تب یہاں ایک شہنشاہ دولت کا سہارا لیکر اپنی محبوبہ کی یاد میں تاج محل تعمیر کروا رہا تھا … اور اسی دوران برطانیہ کا بادشاہ اپنی ملکہ کے دورانِ ڈلیوری فوت ہو جانے پر ریسرچ کے لیے برطانیہ میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل اسکول بنوا رہا تھا!! جب مغرب میں علوم و فنون کے بم پھٹ رہے تھے، تب یہاں تان سین جیسے گوئیے نت نئے راگ ایجادکر رہے تھے اور نوخیز خوبصورت و پرکشش رقاصائیں شاہی درباروں کی زینت و شان اور وی۔ آئی۔ پیز تھیں۔! جب انگریزوں، فرانسیسیوں اور پرتگالیوں کے بحری بیڑے برصغیر کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے تب ہمارے اَرباب، اختیار شراب و کباب اور چنگ و رباب سے مدہوش پڑے تھے …!
تن آسانی، عیش کوشی اور عیش پسندی نے کہیں کا نہیں چھوڑا، ہمارا بوسیدہ اور دیمک زدہ نظام پھیلتا چلا گیا‘‘۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے ہمارے ایک استاد محترم تو یہاں تک کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں ایجادیں اس وقت بھی عروج پر تھی کہیں قیمہ بھرے کلچے، شاہی نان اور بمبئی بریانی کی ایجاد ہورہی تو کہیں راگ الاپ جارہے تھے۔ اب تبدیلی کے اگر ہم خواہاں ہیں تو تبدیلی کا واحد حل اسلام ہی کی تعلیمات میں پوشیدہ ہے اس کتاب کو تھام لیجیے یقینا ناامیدی کفر ہے میرا ربّ آج بھی ہمارا منتظر ہے۔
فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی