فلسطین: راتیں طویل تو ہوسکتی ہیں لیکن…!

253

عالم اسلام اور بہت حد تک مسلم عوام کی ہمت، جرأت اور بہادری کو داد دینی چاہیے کہ وہ ضبط و تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ آج کی دنیا میں کہیں نظر نہیں آتا۔ غزہ میں اسرائیلی درندگی کو اب پورا ایک سال ہو گیا ہے لیکن عالم اسلام اب بھی خاموشی سے اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔ اس کے بر عکس امریکا، برطانیہ، فرانس اور کم و بیش پورا عالم ِ کفر آج بھی کسی نہ کسی طرح اسرائیل کی بھر پور مدد کر رہا اور نہ جانے کب تک کرتا رہے گا۔ اب تو شاید عالم اسلام یہ بھی بھول گیا ہو گا کہ 365 دنوں میں عید اور عید قربان کے دن غزہ کے بچوں پر شدید بمباری جاری رکھی گئی تھی۔ سات اکتوبر کو غزہ جنگ کا ایک سال مکمل ہونے پر پاکستان سمیت چند اسلامی ممالک اور دنیا بھر کے کافر ممالک میں احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں، جن میں غزہ کے ساتھ ساتھ لبنان میں جنگ بندی کے مطالبات سرفہرست ہیں۔ عالمی اخبارت بتا رہے ہیں 6 اور 7 اکتوبر 2024ء کے دن پورے عالم کفر کے طلبہ و طالبات اور عوام گھروں سے باہر ہیں اور غزہ کے ساتھ ساتھ لبنان میں جنگ بندی کے مطالبات سرفہرست ہیں۔ ان مظاہروں میں دو دنوں کے دوران نہ صرف فلسطینیوں بلکہ اسرائیل کے حق میں بھی مظاہروں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ 5 اکتوبر کو واشنگٹن میں ایک ہزار سے زائد افراد نے وائٹ ہاؤس کے باہر مظاہرہ کیا اور کملا ہیرس سے پوچھتے رہے کہ سیز فائر کب ہوگا، امریکا سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اسرائیل کو ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ مالی امداد کی فراہمی بند کرے۔ امریکا اسرائیل کو فوجی امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اسی مظاہرے کے دوران بطور احتجاج ایک شخص نے خود کو آگ لگانے کی بھی کوشش کی۔ وہ اپنے بائیں بازو کو آگ لگانے میں کامیاب رہا لیکن وہاں موجود پولیس اور دیگر افراد نے متاثرہ شخص کی خود سوزی کی کوشش ناکام بنا دی اور اس کو حفاظتی حصار میں لے لیا۔ دنیا بھر کی طر ح فلسطینیوں کے ہزاروں حامی یورپ، افریقا، آسٹریلیا اور امریکا کے دیگر شہروں میں بھی جمع ہوئے اور انہوں نے غزہ اور لبنان میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔

7 اکتوبر 2023ء کے بعد اسرائیل نے غزہ پر حملوں کا آغاز کر دیا تھا۔ حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اب تک 41,825 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ اقوام متحدہ ان اعداد وشمار کو قابل اعتماد قرار نہیں دیتی ہے۔ اس کا کہنا ہے یہ تعداد تو صرف بچوں کی بنتی ہے۔ اسرائیل نے اب لبنان میں بھی زمینی کارروائی شروع کر دی ہے اور اس نے چند روز قبل ایران کی طرف سے داغے گئے میزائلوں کا جواب دینے کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ یہ تنازع ایک وسیع جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں امریکا میں ہو نے والے انتخابات بھی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

عالمی میڈیا اور رائٹرز کی رپور ٹ کے مطابق روم میں فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ یہ مظاہرہ اس وقت پرُتشدد صورت اختیار کر گیا، جب درجنوں نوجوان مظاہرین نے پولیس پر بوتلیں پھینکیں اور پولیس نے آنسو گیس کے ساتھ ساتھ واٹر کینن کا استعمال کیا۔ جرمن پولیس کے مطابق انہوں نے برلن میں ایسے 26 افراد کو حراست میں لیا ہے، جنہوں نے اسرائیل کے حق میں ہونے والی ایک تقریب میں خلل ڈالنے کی کوشش کی۔ جرمنی میں حکومت کی اجازت نہ ملنے کے باوجود سے دارالحکومت میں فلسطینیوں کے حق میں ایک اور ریلی بھی نکالی گئی، جس میں ایک ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے صحافیوں نے بتایا کہ فرانس میں ہزاروں افراد نے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پیرس، لیوں، تولوز، بورڈو اور اسٹراسبرگ میں مارچ کیا۔ اسٹون اے ٹی ایس نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا ہے کہ سوئس شہر بازل میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے میں کئی ہزار لوگ شریک ہوئے۔ جنوبی افریقا کے کیپ ٹاؤن میں سیکڑوں افراد پارلیمنٹ کی طرف واک کرتے ہوئے اسرائیل مخالف نعرے بلند کرتے رہے۔ ہفتے کو جوہانسبرگ اور ڈربن میں بھی فلسطینیوں اور غزہ کے حق میں مظاہرے کیے گئے۔ اے ٹی ایس نیوز ایجنسی نے رپورٹ دی ہے کہ کراکس میں سیکڑوں مظاہرین نے وینزویلا کے لیے اقوام متحدہ کے صدر دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا اور انہوں نے فلسطینی پرچم اٹھا رکھے تھے۔ ایک یونیورسٹی کے 53 سالہ پروفیسر جیزس رئیس کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اقوام متحدہ کے امن دستے کہاں ہیں؟ انہوں نے مداخلت کیوں نہیں کی؟‘‘

جکارتہ کے اخبارات کا کہنا ہے کہ اتوار 6 اکتوبر کی صبح ایک ہزار سے زیادہ لوگ میں امریکی سفارت خانے کے باہر ایک ریلی کے لیے جمع ہوئے۔ منتظمین اور عوامی شخصیات نے ایک اسٹیج سے تقریریں کیں جبکہ ایک آزاد فلسطین اور آنے والی انڈونیشیائی حکومت سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہ کرنے کے مطالبات کیے گئے۔

آسٹریلیا میں ہزاروں مظاہرین سڈنی اور دوسرے بڑے شہروں کی سڑکوں پر جمع ہوئے۔ اتوار 6 اور پیر7 اکتوبر کو نیو یارک، سڈنی، بیونس آئرس، میڈرڈ، منیلا اور کراچی سمیت دنیا کے کئی درجنوں شہروں میں فلسطینیوں کے حق میں ریلیاں نکالی گیں۔ کراچی میں اتوار اور پیر کو جماعت ِ اسلامی کی اپیل پر مظاہرے۔ پیر کو شدید تپتی ہوئی دھوپ میں اسکول کے بچے اور بچیوں نے فلسطینیوں کے حق میں ریلیاں نکالیں، اس موقع پر عوام بھی بچوں کے لیے ہاتھوں میں پانی، جوس اور بسکٹ کے ڈبے لے کر نکلے اور بچوں میں تقسیم کیے۔ اسی طرح لندن، واشنگٹن، پیرس اور جنیوا میں سات اکتوبر کے اسرائیلی متاثرین کے لیے بھی یادگاری تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔

آ ج سے ایک سال قبل بھی یہی کہا جارہا تھا کہ حماس کا 7 اکتوبر 2023ء کا اقدام درست تھا کہ نہیں اس بارے میں یہ بتاتا چلوں کے 2007ء سے غزہ ایک جیل سے زیادہ کچھ نہیں تھا جہاں فلسطینیوں کو قید کر کے رکھا گیا تھا اور ستم بالائے ستم سعودی عرب سمیت اسرائیل کے ارد گرد تمام اسلامی ممالک اسرائیل سے اپنے تعلقات کو سفارتی تعلقات میں تبدیل کرنے کی کوشش میں مصروف ہو گئے تھے۔ اسرائیل اور حماس کی جنگ کو سیاسی اور اقتصادی طور پر، سعودی عرب کی پرعزم تبدیلی کے لیے براہ راست خطرہ بن چکی ہے۔ اس کے نتیجے میں سعودی سیاست گزشتہ ایک سال سے سفارتی توازن پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ جنگ کے آغاز پر حزب اللہ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے باوجود 7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے لبنان میں حزب اللہ کی حمایت میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ اس ایک سال کے دوران خاموش حکمرانوں میں محمود عباس بھی شامل ہیں۔ مغربی کنارے میں 7 اکتوبر سے پہلے ہی سے صورت حال بہت کشیدہ تھی۔ فلسطینی اتھارٹی برسوں سے کمزور ہے، یہودی آباد کار فلسطینیوں پر حملے کر رہے ہیں اور موجودہ دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت نے اپنے اتحادی پروگرام میں یہ کہہ کر کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے کہ مغربی کنارے پر صرف یہودیوں کا حق ہے۔ ایک سال میں حماس کے سربرہ اسماعیل ہنیہ، اور حزب اللہ کے سربراہ کی شہادت کا بھاری نقصان اُٹھانا لیکن ایک بات آج بھی روشن ہے کہ جیت ہر صورت فلسطینیوں اور لبنان کے شہیدوں کی ہوگی اور فلسطین ضرور آزاد ہو گا۔ راتیں طویل تو ہو سکتی ہیں لیکن نہ ختم ہونے والی کبھی بھی نہیں۔