ڈاکٹر ذاکر نائیک نے نظریہ پاکستان تازہ کردیا

498

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت کی دعوت پر پاکستان آنے والے عالمی مبلغ اسلام ڈاکٹر ذاکر نائیک نے وہ بات کہ دی جس کے بعد ان کے خلاف طوفان کھڑا ہوسکتا ہے۔ کم از کم ترقی پسندوں اور نظریہ پاکستان کے دشمنوں کے سینوں پر تو سانپ لوٹنے لگیں گے ، بلکہ لوٹ رہے ہونگے ،انہوں نے وہ بات کہ دی جو جماعت اسلامی تواتر سے کہتی آرہی ہے،لیکن پاکستان کی اشرافیہ اور انتہا پسند نام نہاد دانشور اسے تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے اور کبھی قائد اعظم پر سیکولر ہونے کا الزام لگاتے رہے اور کبھی اس بات ہی سے انکار کرتے رہے کہ ، تحریک پاکستان میں ایسا کوئی نعرہ بھی لگا تھا۔لیکن اب ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بھی وہی کہ دیا کہ پاکستان اسلام کے نام پربنا یہاں قرآن کا قانون ہونا چاہیے، انہوں نے گورنر ہائوس کراچی میں سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھ کر عمل کریں ، اتفاق سے یہ سوال بھی ایک غیر مسلم کے حصے میں آیا کہ،پاکستان میں کون سا قانون ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر راجیش کمار نے سوال کیا کہ ہم پاکستان میں پیدا ہوئے اسلامیات بھی پڑھی میرا سوال ہے کہ ہمارے ملک میں شرعی قوانین ہونے چاہئیں۔ ذاکر نائیک نے کہا کہ پاکستان واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا یہاں قرآن کا قانون ہونا چاہیے۔یہی وہ مسئلہ ہے کہ اگر ہمارا حکمران طبقہ اسے سمجھ لے تو پاکستان کے بیشتر مسائل حل ہوجائیں گے، اس کے بعد شاید وہ مسائل سامنے آئیں جو اس ملک کے نظریے کے مخالفین پیدا کریںگے۔ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کوئی نئی بات نہیں کہی ہے بلکہ ایک حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے جو تاریخ کا حصہ ہے ، ایک اعتبار سے انہوں نے نظریہ پاکستان تازہ کردیا ،قوم کے ذہنوں میں تو تازہ تھا حکمرانوں کو یاددہانی ہوگئی۔ لیکن یہ لوگ اسے ماننے پر تیار نہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے قرآن پاک ترجمے کے ساتھ پڑھنے کی جو نصیحت کی ہے وہ بہترین کام کیا ہے ،کسی بھی مستند عالم دین کا ترجمہ لے کر پڑھیں، دین کے بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے اور بہت سے مسائل کے حل کی راہ سوجھے گی۔اسی طرح ایک اور ہندو شخص نے سوال کیا کہ مسلمانوں کے بہتر فرقے ہیں اگر کوئی مسلم بنتا ہے تو کون سے فرقے میں داخل ہو۔ ذاکر نائیک نے کہا کہ قرآن میں لکھا ہے فرقہ بنانا حرام ہے مسلمانوں میں بہتر فرقے نہیں ہے۔ ان کے اس جواب سے بھی مسلمانوں اور خصوصا پاکستان میں فرقہ واریت کے عفریت کے حوالے سے موجود مسائل کا حل سامنے آیا ہے ، اگر کہیں کوئی فقہی اختلاف بھی ہے تو بس اسے فقہی رہنا چاہیے لیکن یہاں تو گردن مارنے تک نوبت آجاتی ہے۔شاید ضد میں فرقہ واریت پر اڑے ہوئے لوگوں کو ڈاکٹر ذاکر نائیک کی یہ بات بری لگے لیکن اتحاد امت پاکستان اورآجکل پورے عالم اسلام کی شدید ضرورت ہے، اس اتحاد امت ہی سے عالم کفر کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے میزبانوں کو بھی اس جانب توجہ دینی ہوگی کہ پاکستان کے قیام کے بنیادی سبب اور نظریہ کی جانب بھارت سے آنے والے اسکالر نے توجہ دلائی ہے۔جبکہ پاکستان میں تو اس نظریہ کے مخالفین بھی ہیں۔آج دنیا کے حالات اس کا تقاضا کرتے ہیں کہ مسلمان ملت واحدہ بنیں حالانکہ کفر ملت واحدہ بنا ہوا ہے۔