اِن دنوں اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ اِس وقت ملک میں سب سے مصروف اور مقبول سیاستدان کون ہے؟ تو ہماری نگاہیں بے اختیار مولانا فضل الرحمن کی طرف اُٹھ جائیں گی۔ اپوزیشن بھی ان کی بلائیں لے رہی ہے اور حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں بھی ان کے صدقے واری جارہی ہیں۔ کیونکہ قومی اسمبلی میں ان کے پاس آٹھ سیٹیں ہیں اور یہ سیٹیں ’’بیلنس آف پاور‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اپوزیشن میں ہے کون سوائے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے۔ جماعت کو اقتدار کی موجودہ سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، وہ عوام کی سیاست کررہی ہے اور انہیں بجلی کے ہوش ربا بلوں، آئی پی پیز کی مالی دہشت گردی اور ٹیکسوں کے ظالمانہ نظام سے نجات دلانا چاہتی ہے۔ جماعت اسلامی کے ملک گیر احتجاج کو روکنے کے لیے حکومت نے ڈیڑھ ماہ قبل جماعت سے دس نکاتی معاہدہ بھی کیا تھا لیکن مقررہ مدت گزرنے کے بعد حکومت اس معاہدے پر عمل کرنے میں ناکام رہی اور اب پھر جماعت اسلامی اپنے احتجاجی پروگرام کے ساتھ میدان میں ہے۔ جبکہ اقتدار کی موجودہ سیاست میں اپوزیشن کی واحد جماعت تحریک انصاف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے مدمقابل ہے وہ ان کے جبر کا پامردی سے مقابلہ بھی کررہی ہے اور انہیں چیلنج بھی دے رہی ہے۔ اس وقت میچ بری طرح پھنسا ہوا ہے اور دونوں مقابل قوتوں میں سے کوئی بھی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ میچ جیتنے کا دعویٰ کرسکے۔ حکومت پارلیمنٹ سے آئینی ترامیم منظور کراکے میچ جیتنا اور اپوزیشن یعنی تحریک انصاف اور اس کے قائد عمران خان کو قابو کرنا چاہتی ہے جو جیل میں بیٹھ کر بھی ان کے لیے وبال جان بنا ہوا ہے۔
یہ آئینی ترامیم کیا ہیں؟۔ آئینی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ محض آئینی ترامیم نہیں بلکہ نیا آئینی مسودہ ہے جسے پارلیمنٹ سے منظور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پارلیمنٹ بھی وہ جس کی کوئی نمائندہ حیثیت ہی نہیں ہے۔ خود مسلم لیگی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہمیں حکومت تحفے میں دی گئی ہے۔ عوام نے ہمیں ووٹ نہیں دیے لیکن جن کے ہاتھ میں بندوق ہے انہوں نے بندوق کے زور پر ہمیں حکومت دے دی ہے۔ اب وہ ہم سے نت نئے مطالبات کررہے ہیں۔ یہ آئینی ترامیم بھی انہی کا مطالبہ ہے۔ نجم سیٹھی اپنی چڑیا کے ذریعے یہ خبر لائے ہیں کہ بندوق برداروں نے لیگی حکومت کو وارننگ دے دی ہے کہ اگر مجوزہ آئینی ترامیم پارلیمنٹ سے منظور نہ ہوئیں تو اپنا بوریا بستر باندھ لو ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ہے۔ ایسے میں بلاول زرداری خوب اچھل کود کررہے ہیں ان کا خیال ہے کہ شہباز شریف گئے تو وزارتِ عظمیٰ کی خالی کرسی ان کے حصے میں ہی آئے گی کیونکہ وہی شہباز شریف کا متبادل ہیں۔ ان کے علاوہ بندوق برداروں کے پاس کوئی اور چوائس نہیں ہے، بلاول بھی اچھل اچھل کر آئینی ترامیم کی حمایت کررہے ہیں۔ ان آئینی ترامیم کی ایک اہم شق عدالت عظمیٰ سے بالاتر ایک آئینی عدالت کا قیام ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ عدالت‘ عدالت عظمی کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے قائم کی جارہی ہے جو اس ماہ ریٹائر ہورہے ہیں۔ قاضی صاحب کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی ملازمت میں توسیع نہیں لیں گے، چنانچہ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں نئی آئینی عدالت کا سربراہ مقرر کردیا جائے گا اور تمام سیاسی و آئینی مقدمات اس عدالت میں منتقل کردیے جائیں گے۔ اس طرح نئے چیف جسٹس مسٹر جسٹس منصور علی جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تحریک انصاف اور عمران خان کے حامی ہیں، تہی دست رہ جائیں گے اور عمران خان یا ان کی پارٹی کوئی ریلیف نہیں دے سکیں گے۔
وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ آئینی ترامیم کی منظوری کا کام اسی ماہ ہونا ہے ورنہ وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔ یہ کام مولانا فضل الرحمن کی حمایت کے بغیر نہیں ہوسکتا کیونکہ بیلنس آف پاور ان کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) جس نے حکومت بناتے وقت انہیں گھاس بھی نہیں ڈالی تھی اب ان کے منت ترلے کررہی ہے۔ شہباز شریف بطور وزیراعظم حضرت مولانا سے ملاقات کرچکے ہیں۔ نواز شریف پیغام پر پیغام بھیج رہے ہیں۔ ابھی کل ہی عرفان صدیقی ان کا پیغام لے کر حضرت مولانا کے پاس گئے تھے۔ مولانا نے انہیں کیا گولی دی ہمیں نہیں معلوم لیکن ان کے بعد اپوزیشن لیڈر محمود اچکزئی نے مولانا سے ملاقات کرکے نواز شریف کے پیغام کا سارا اثر زائل کردیا۔ لطیفہ یہ ہے کہ مولانا سے آئینی ترامیم کی حمایت حاصل کرنے کے لیے جو لوگ بھی ملنے جاتے ہیں جب مولانا ان سے کہتے ہیں اچھا لائو آئینی ترامیم دکھائو تو وہ بغلیں جھانکنے لگتے ہیں اور آئینی ترامیم کا مسودہ کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ ایک دوست کہہ رہے تھے کہ خود شہباز شریف اور بلاول زرداری کو بھی نہیں معلوم کہ آئینی ترامیم کیا ہیں یا آئینی ترامیم کے جو تین مسودے گردش میں ہیں ان میں سے اصلی کون سا ہے انہیں تو بس اوپر سے حکم آیا ہے اور وہ ڈھول بجا رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ وزیرداخلہ محسن نقوی اور حضرت مولانا کے صاحبزادے اسد محمود کے درمیان ڈیل ہوگئی ہے اور اسد محمود کو پوری امید ہے کہ ابا جی اسے مایوس نہیں کریں گے۔ واقعی ’’اباجی‘‘ بڑے امتحان میں ہیں اور اقبال انہیں مخاطب کرکے کہہ رہے ہیں
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم؟
وزیر داخلہ کے ساتھ ڈیل میں شکم کا سارا سامان موجود ہے جبکہ اس کی مخالفت امتحان ہی امتحان ہے۔ مولانا کے عقیدت مند یہ توقع کررہے ہیں کہ وہ امتحان میں پورا اُتریں گے۔