محنت کشوں کے سماجی تحفظ کے ادارے

80

سماجی تحفظ ( Social Security) سے مراد وہ تحفظ ہے جو کوئی معاشرہ ایک مناسب تنظیم کے ذریعہ ضرورت مند افراد کو ناگہانی صورت حال میں درپیش معاشی خطرات کے مقابلہ کے لیے فراہم کرتا ہے۔ دنیا میں سماجی تحفظ کا آغاز صنعتی انقلاب کے دوران 19ویں صدی میں یورپ سے ہوا تھا اور صنعتی تیز رفتاری سماجی تحفظ کی تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ جرمنی کے عظیم مفکر اور سیاستداں آٹو وان بسمارک (1898-1815) کو سماجی تحفظ کے جدید نظریہ کا ’’باوا آدم‘‘ مانا جاتاہے۔جنہوں نے 1883ء میں جرمن پارلیمنٹ کے سامنے سماجی بیمہ(Social Insurance) کا مکمل خاکہ پیش کرکے سب سے پہلے جرمنی میں لازمی سماجی بیمہ کا نظام تین مرحلوں میں نافذ کیا تھا۔اس کے بعد آسٹریا، برطانیہ، امریکا، یورپ کے دیگر ممالک اور روس، جاپان آسٹریلیا، نیوزی لینڈ نے اس عمل کی تقلید میں کارکنوں کے سماجی تحفظ کے لیے کئی ادارے قائم کیے۔
جبکہ پاکستان میں کارکنوں کے لیے سماجی تحفظ نظام ( Security Social System) کا آغاز انجمن اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارہ عالمی ادارہ محنت (ILO) کی تکنیکی معاونت اور فنی اشتراک سے یکم مارچ 1967ء کو عمل میں آیا تھا ۔جو 1949ء￿ میں اپنے قیام سے اب تک دنیا بھر میں کارکنوں کے حالات کار، صحت کی دیکھ بھال،باوقار کام، منصفانہ اجرتوں کے تعین اور ریٹائرمنٹ اور معذوری کی صورت میں پنشن منصوبوں کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔
پاکستان میں اس مقصد کے حصول کے لیے پہلی بار مغربی پاکستان سماجی تحفظ برائے ملازمین 1965 ء کے دسویں آرڈیننس کے تحت اسے نافذ کیا تھا۔جس کا اطلاق ماسوا قبائلی علاقوں کے پورے مغربی پاکستان کے لئے موثر بعمل تھا۔

صوبہ سندھ کو یہ قابل فخر اعزاز حاصل ہے کہ ملک میں صنعتی اداروں میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے متعارف کرائے گئے سماجی تحفظ نظام کی ابتداء 1967ء میں ملک کی صنعت و کاروبار کے عظیم مرکز کراچی سے ہوئی تھی۔جس منصوبہ کا افتتاح اس وقت کے حکومت مغربی پاکستان کے وزیر محنت ملک اللہ یار نے کیا تھا۔ ابتداء میں کراچی، حیدر آباد اور لائل پور ( فیصل آباد) کے کپڑے کے کارخانوں کے ملازمین پر یکم مارچ 1967 کو اس منصوبہ کا اطلاق ہوا تھا۔ کراچی شہر اور صنعتی علاقہ لانڈھی میں دسمبر 1966ء میں ادارہ سماجی تحفظ برائے ملازمین کے اولین دفاتر قائم کیے گئے تھے۔منصوبہ کے پہلے مرحلہ میں کراچی شہر میں۔187 اور لانڈھی میں 26 کارخانے رجسٹر کیے گئے تھے جہاں تقریباً 59 ہزار کارکن خدمات انجام رہے تھے۔جبکہ رجسٹرڈ کارکنوں کے علاج معالجہ کے لیے کراچی شہر میں ایک اور ملیر میں ایک ڈسپنسری قائم کی گئی تھی۔ہنگامی صورت حال اور صنعتی حادثات کی صورت میں تحفط یافتہ کارکن (Covered)کے علاج و معالجہ کے لیے ادارہ سماجی تحفط برائے ملازمین کے خرچ پر سول اسپتال کراچی سے بھی ایک معاہدہ بھی کیا گیا تھا۔ مغربی پاکستان ادارہ سماجی تحفظ برائے ملازمین نے 30 جون 1970ء تک نمایاں خدمات انجام دیں اور ملک میں یکم جولائی 1970ء کو ون یونٹ نظام کے خاتمہ کے بعد چار صوبے سندھ ،پنجاب، سرحد اور بلوچستان وجود میں آگئے تھے۔ لہٰذا اس صورت حال کے پیش نظر اب ضروری ہوگیا تھا کہ ادارہ سماجی تحفظ برائے ملازمین کو صوبائی سطح پر استوار کیا جائے۔

چنانچہ اس مقصد کے تحت صوبہ سندھ میں یکم جولائی 1970ء کو ادارہ سماجی تحفظ برائے ملازمین سندھ (سیسی) کا قیام عمل میں آیا تھا۔ابتدا میں یہ فلاحی منصوبہ صرف کراچی اور حیدر آباد کی ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ کارکنوں کے تحفظ (Coverage) کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں کارکنوں کی جانب سے اس فلاحی منصوبہ کی بڑے پیمانے پر قبولیت اور حوصلہ افزاء نتائج سامنے آنے کے بعد اس فلاحی منصوبہ کا دائرہ کار صوبہ کی تمام صنعتوں، کاروباری اور تجارتی اداروں تک وسیع کردیا گیا تھا۔
اس کے بعد رفتہ رفتہ ملک کے دیگر صوبوں صوبہ پنجاب، صوبہ خیبر پختونخوا اور صوبہ بلوچستان میں بھی ادارہ سماجی تحفظ برائے ملازمین کے علیحدہ علیحدہ محکمہ جات قائم کیے گئے تھے۔اس سلسلے میں صوبہ پنجاب میں، ادارہ سماجی تحفظ برائے ملازمین پنجاب (PESSI)، حکومت پنجاب کے رول آف بزنس 1974ء کے تحت بذریعہ صوبائی ایمپلائز سوشل سکیورٹی آرڈیننس 1965ء کے تحت ایک خود مختار ادارہ کی حیثیت سے وجود میں آیا تھا۔ جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا میں، ادارہ سماجی تحفظ برائے ملازمین خیبر پختونخوا (KPKESSI) 1970ء میں اور صوبہ بلوچستان میں 1989ء میں ادارہ سماجی تحفظ برائے ملازمین بلوچستان (BESSI) قائم کیے گئے تھے۔ جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ادارہ سماجی تحفط برائے ملازمین(IESSI) کا قیام جنوری 2013ء میں عمل میں آیا تھا۔

چونکہ عالمی ادارہ محنت (ILO) اور اس کی معاونت سے دنیا بھر میں کارکنوں کی بھلائی کے لیے قائم کیے گئے تمام فلاحی ادارے سہ فریقی بنیادوں پر قائم کیے گئے ہیں اور کارکنوں کے لیے سماجی تحفظ منصوبہ(Social Security System ) بھی ایک سہ فریقی نظام پر قائم ہے۔جس میں صوبائی حکومت، آجران اور ملازمین اس کے تین فریقین ہیں جن کے باہمی اشتراک اور مشوروں سے اس فلاحی منصوبہ پر عملدر آمد کیا جاتا ہے۔ لہٰذا وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور ملک کے چاروں صوبوں میں قائم ادارہ ہائے سماجی تحفظ برائے ملازمین کا انتظامی ڈھانچہ بھی سہ فریقی بنیادوں پر قائم ہے۔ اسی طرح ملک کے تمام ادارہ ہائے سماجی تحفظ برائے ملازمین، کمشنر کے عہدہ کے ایک اعلیٰ افسر کی نگرانی میں قائم صحت کی دیکھ بھال کرنے والے ماہرین، ڈاکٹرز، طبی عملے،منتظمین اور صنعتی کاروبار اور تجارتی اداروں کا دورہ اور معائنہ کرنے والے عملہ کی ٹیم پر مشتمل ہیں۔

کسی بھی صنعتی،کاروباری یا تجارتی ادارہ کے ملازمین جو براہ راست یا کسی اور شخص کے ذریعہ اجرت کے لیے یا بصورت دیگر ہنر مند ،غیر ہنر مند کام انجام دینے کے لیے یا سپروائزری، کلریکل، دستی یا کوئی اور کام یا ان امور سے متعلق مقرر کیے گئے ہوں ،وہ تمام کارکن اپنے صوبہ کے ادارہ سماجی تحفظ برائے ملازمین میں رجسٹریشن کے اہل ہیں۔
ملک کے دیگر سماجی تحفط اداروں کی طرح ادارہ سماجی تحفظ برائے ملازمین سندھ (SESSI) صوبہ کے رجسٹر شدہ کارکنوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے فراہمی خدمت Service Delivery پر مشتمل ایک قدیم صوبائی فلاحی ادارہ ہے۔ جس کے بنیادی فرائض صوبہ کے لاکھوں افراد پر مشتمل محنت کش طبقہ اور ان کے اہل خانہ کی فلاح وبہبود کے لحاظ سے منفرد نوعیت کے ہیں۔ اس فلاحی ادارہ کے اغراض و مقاصد میں تحفظ یافتہ (Covered) کارکنوں اور ان کے زیر کفالت افراد کے لیے ابتدائی طبی امداد، صحت کی دیکھ بھال، علاج و معالجہ اور نقد مالی فوائد کی فراہمی شامل ہے۔ اپنی تشکیل کے لحاظ سے ادارہ سماجی تحفظ برائے ملازمین سندھ (SESSI) ایک خود مختار ادارہ کی حیثیت رکھتاہے۔ جس کے انتظامی اور مالیاتی معاملات کی نگرانی ایک گیارہ (11) رکنی سہ فریقی گورننگ باڈی کے سپرد ہے۔ جس میں صوبائی حکومت، آجران اور کارکنوں کو مساوی نمائندگی حاصل ہے۔صوبہ سندھ کے وزیر محنت و انسانی وسائل بربنائے عہدہ ادارہ سماجی تحفظ برائے ملازمین سندھ کے چیئرمین ہوتے ہیں۔

پاکستان میں سماجی تحفظ کے تمام ادارے سماجی بیمہ ( Social Insurance) کی طرز پر کام کرتے ہیں اور اس مقصد کے لیے ایک فنڈ تشکیل دیا جاتا ہے۔ جسے ’’ملازمین کا سماجی تحفظ فنڈ‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ ان سماجی تحفظ اداروں کے انتظامی اور مالی امور کی نگرانی دیکھ بھال ایک اعلیٰ اختیاراتی اور سہ فریقی 11 رکنی گورننگ باڈی کے سپرد ہے۔جس کے ارکان میں صوبائی حکومت کی نمائندگی کے لیے چار ارکان سرکاری ارکان محکمہ محنت، محکمہ صنعت ، محکمہ صحت اور محکمہ مالیات کے اعلیٰ افسران، آجران کے تین نمائندے،محنت کشوں کے تین نمائندے اور کمشنر ادارہ سماجی تحفظ برائے ملازمین سندھ شامل ہیں جبکہ گورننگ باڈی ادارہ کے میڈیکل ایڈوائزر بلحاظ عہدہ، ادارہ کے انتظامی سربراہ کمشنر کی مدد سے تمام اختیارات استعمال کرتی ہے۔محنت کشوں اور آجران کی نمائندگی کے لیے صوبائی حکومت کو اگرچہ ان کی انجمنوں کے جانب سے سفارشات موصول ہوتی ہیں۔ لیکن گورننگ باڈی کے ارکان کا حتمی انتخاب صوبائی حکومت خود کرتی ہے جس کا اعلان گزٹ نوٹیفکیشن کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔
ادارہ سماجی تحفظ برائے ملازمین سندھ (SESSI)کے عمومی احکامات اور نگرانی کے معاملات اعلیٰ سطحی سہ فریقی گورننگ باڈی کے سپرد ہیں۔ گورننگ باڈی اس فلاحی ادارہ کو موزوں انداز میں چلانے کے لیے وقتاً فوقتاً پالیسی کے مطابق رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

ادارہ سماجی تحفظ برائے ملازمین سندھ کے سربراہ کمشنر کہلاتے ہیں جو ادارہ کے چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت رکھتے ہیں اور گورننگ باڈی کی جانب سے تفویض کردہ اختیارات استعمال کرتے ہیں۔ کمشنر سوشل سیکیوریٹی اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے انتظامی معاملات میں وائس کمشنر اور طبی معاملات میں طبی مشیر (Medical Advisor) ان کی معاونت کرتے ہیں۔جبکہ اس فلاحی ادارہ کی گورننگ باڈی کے تحت مختلف کمیٹیاں بھی قائم ہیں۔ جن میں فنانس کمیٹی، سلیکشن/پروموشن کمیٹی،اپیلیٹ کمیٹی،سروے کمیٹی، پنشن، گریجویٹی اور جنرل پرو ویڈنٹ کمیٹی، ادویات اور طبی آلات کی خریداری کمیٹی،انوسٹمنٹ کمیٹی اور نئی تنظیم سازی کمیٹی شامل ہیں۔

ادارہ سماجی تحفظ برائے ملازمین سندھ (SESSI) اپنے ذرائع آمدن خود پیدا کرنے والا ایک خودمختار ادارہ ہے اور اس کا واحد ذریعہ آمدن رجسٹر شدہ آجران سے وصول شدہ ماہانہ سوشل سیکیورٹی کنٹری بیوشن کی رقم ہے۔ واضح رہے کہ منصوبہ میں تحفظ یافتہ اداروں کے آجران اپنے تحفظ یافتہ (Covered) کارکنوں کی اجرت کے 6، فیصد کے مساوی ماہانہ کنٹری بیوشن ادارہ سماجی تحفظ برائے ملازمین سندھ (SESSI) کو ادا کرنے کے پابند ہیں۔
(جاری ہے)