7اکتوبر : اسرائیل کے لیے قیامت طوفان الاقصیٰ

118

’’فلسطین اور اسرائیل کے درمیان نئی جنگ چھڑ گئی، عالمی میڈیا نے اسے مشرق وسطیٰ میں تعلقات کی از سر نو تشکیل کی کوششوں کے لیے دھچکا قرار دیا۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ جنگ ممکنہ طور پر سعودی اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانے کی بائیڈن کی سفارت کاری کو متاثر کرے گی۔ فلسطینی تنظیم حماس نے کہا کہ ہم مار کربھاگیں گے نہیں، مکمل جنگ شروع کی ہے، توقع ہے کہ محاذ پھیلے گا، ہماری جہدو جہد کا مقصد زمین اور مقدس مقامات کی آزادی ہے ،گرفتار کیے گئے زیادہ ترتعداد اسرائیلی فوجیوں کی ہے جتنے اسرائیلی ہمارے ہاتھ لگے ہیں اس کے بدلے میں اسرائیل ہمارے تمام فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔ اسرائیل میں ہونے والے حماس کے سب سے بڑے حملے کو روکنے میں اسرائیلی انٹیلی جنس سروس بری طرح ناکام ہو گئی۔ اسرائیلی حکام سے سوال کیا گیا کہ اس قدر اور بے شمار وسائل کے ہوتے ہوئے آپ کو حملے کی پیشگی اطلاع نہیں ملی تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوا کہ ایسا بھی کچھ ہو سکتا ہے۔ ‘‘
مندرجہ بالا سطور عالمی میڈیا پر چلنے والی خبروں کے حصے ہیں جو 7اکتوبر 2023ء کے بعد پوری دنیا پر چھائی رہیں۔

حماس اور اسرائیل کی تاریخی جنگ
7 اکتوبر 2023ء کو حماس کی جانب سے اسرائیل کو گھر میں گھس کر مارنے کی کامیاب کارروائی کی گئی۔ عبرانی کیلنڈر کے مقدس ترین دن یوم کپور کے موقع پر حماس کے جانباز پیراگلائیڈرفضائی راستے سے اسرائیل میں داخل ہوئے اور اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا غرور خاک میں ملادیا۔ اس موقع پر اسرائیل میں مذہبی تعطیل تھی اور یہود ایک کنسرٹ میں رنگ رلیاں منانے میں مصروف تھے۔ حماس کے مجاہدین نے اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کو یرغمال بنایا اور بحفاظت غزہ پہنچنے میں کامیاب رہے۔ اس دوران حماس نے راکٹوں سے بھرپور حملہ کیا جن میں سے چند تل ابیب او ربیت المقدس تک پہنچے۔ مجاہدین نے کئی گھنٹوں تک اسرائیلی قصبوں اور فوجی پوسٹوں کو گھیرے رکھا۔ تمام تر کارروائی سوشل میڈیا اور مرکزی میڈیا پر براہ راست نشر ہوتی رہی۔ حماس نے اس آپریشن کو ’’طوفان الاقصیٰ ‘‘کا نام دیا۔

حماس کے آگے اسرائیلی انٹیلی جنس ناکام
اسرائیل کی داخلی انٹیلی جنس ایجنسی شاباک، اس کی بیرونی خفیہ ایجنسی موساد اور اسرائیل ڈیفنس فورسز کے تمام وسائل کے باوجود یہ حیران کن امر ہے کہ کسی کو بھی اس حملے کی توقع تک نہ تھی۔ اور اگر اطلاع تھی تو بھی وہ اس کو مؤثر انداز میں روکنے میں ناکام رہے۔ اسرائیل کے پاس پورے مشرقِ وسطیٰ کی سب سے زیادہ وسائل والی اور وسیع انٹیلی جنس سروس ہے۔ اس کے مخبر اور ایجنٹ فلسطینی عسکریت پسند گروہوں کے علاوہ لبنان، شام اور دیگر ممالک میں بھی موجود ہیں۔ ماضی میں ان کی جانب سے عسکریت پسند کمانڈرز کو انتہائی مہارت سے قتل کیا گیا ہے، اس دوران انہیں اپنے دشمن کی نقل و حرکت کے بارے میں سب کچھ معلوم ہوتا تھا۔ کبھی ایسی کارروائیوں کے لیے اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے ایجنٹس نے مطلوبہ شخص کی گاڑی پر جی پی ایس ٹریکرز لگائے اور پھر ڈرون حملے کی مدد سے ہدف کو نشانہ بنایا گیا۔ ماضی میں اس خفیہ ایجنسی کی جانب سے موبائل فون میں دھماکوں کا بھی سہارا لیا جا چکا ہے۔ غزہ اور اسرائیل کے درمیان سرحدی باڑ کے ساتھ ساتھ وہاں کیمرے اور گراؤنڈ موشن سینسر (یعنی کسی بھی قسم کی حرکت کی صورت میں الارم بجانے والے سینسرز) موجود ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں اسرائیلی فوج باقاعدگی سے گشت بھی کرتی ہے۔ خاردار تاروں کی باڑ کو کسی بھی قسم کی دراندازی روکنے کے لیے ایک سمارٹ بیریئر سمجھا جاتا ہے، تاہم اس حملے کے دوران یہ رکاوٹ بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔ حماس کے مجاہدین اسی راستے سے نہ صرف اندر داخل ہوئے بلکہ انہوں نے خاردار تاروں کو کاٹا اور اس راستے کے ذریعے یا پیراگلائڈرز اور سمندر کے ذریعے اسرائیل میں داخل ہو گئے۔ اس طرح کا پیچید اور مربوط حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنا اور اسرائیلی فورسز کی ناک کے نیچے سے کر گزرنا حماس کی لاجواب آپریشنل سیکورٹی لیول کی عکاسی کرتا ہے۔

حماس کے حملے پر منقسم دنیا
حماس کی کارروائی اور اس کے جواب میں غزہ پر اسرائیلی بمباری و نسل کشی کے معاملے پر دنیا منقسم رہی۔ کہیں اسرائیل کی حمایت کی گئی تو کہیں فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ ان کا ملک چٹان کی طرح اسرائیل کے ساتھ ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے حماس کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ سابق برطانوی وزیراعظم رشی سوناک ، فرانسیسی صدر عمانویل ماکروں، جرمن چانسلر اولاف شولس اور اٹلی نے حماس کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تل ابیب کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ ایران ، یمن، شام اور افغانستان نے حماس کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اسے مبارکباد پیش کی۔ شامی وزارت خارجہ نے حماس کے آپریشن کو بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کے پاس اپنا حق حاصل کرنے کا واحد راستہ مزاحمت ہے۔ سعودی عرب ، قطر اور کویت نے کہا ہے کہ حماس کا حملہ اسرائیلی کارروائیوں کا نتیجہ ہے ، تینوں ممالک نے حملے کی ذمے داری اسرائیل پر عائد کی۔ ترکیہ ، مصر اور متحدہ عرب امارات نے کہا کہ فریقین صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں۔ اس وقت پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے مشرق وسطی میں تشدد میں اضافہ پرتشویش کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ ارض مقدس میں خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام سے مشرق وسطی میں پائیدارامن کا قیام ممکن ہے۔ عرب لیگ کے سربراہ احمد ابو الغیط نے غزہ میں فوجی آپریشن کے خاتمے اور جنگ بندی پر زور دیا۔ جاپان نے حماس اور دیگر فلسطینی مسلح گروپوں کی طرف سے اسرائیلی سرزمین پر راکٹ داغنے اور سرحد پار سے حملوں کی مذمت کی۔ اسی طرح ناٹو اتحاد کے ترجمان نے کہا کہ شمالی بحر اوقیانوس کے معاہدے کی تنظیم حماس کی جانب سے ناٹو کے رکن اسرائیل کے خلاف حملوں کی مذمت کی ہے۔

غزہ کی تباہی اور نائن الیون میں مماثلت
عالمی ادارہ صحت میں اسرائیل کے لیے ترجمان مائیکل تھیرین نے جنیوا میں جمعہ کے روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ غزہ کی تباہی نائن الیون کی طرح ہی ہے۔ انہوں نے 9ستمبر کے حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہزاروں لوگ ملبے میں دبے ہوئے تھے اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے 2ٹاورز اور پینٹاگان پر حملے کی وجہ سے اسپتالوں پر بہت دباؤ تھا اور ادویات، ایندھن اور اسٹاف کی شدید کمی کا سامنا تھا۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسپتالوں اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنے والے اداروں پر 516 بار اسرائیل کی جانب سے حملہ ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے علاج معالجے کی خدمات سرانجام دینے والے 765 فلسطینی شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے نصف کے قریب اسپتال ابھی عارضی طور پر خدمات ادا کر پا رہے ہیں اور فوری علاج معالجے کے محض 43 فیصد ادارے کام کر رہے ہیں۔ ادارے نے مزید بتایا کہ غزہ میں صحت کی کئی طرح کی سہولتوں کا فقدان ہے خصوصاً مصنوعی ٹانگوں کے سینٹر اور نفسیات کے اسپتال میں بنیادی ضروریات موجود نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر انتہائی سہولتیں، جیسے آئکولوجی، ایم آر ائی، بچوں کی سرجری اور اینڈوکرینولوجی سروسز بند پڑی ہیں۔ مائیکل تھیرین نے کہاکہ تنازع کی وجہ سے کم از کم 24 ہزار 90 افراد ایسے زخموں سے گزر رہے ہیں جو جسمانی ہیئت کو تبدیل کر سکتے ہیں یا مندمل نہیں ہو سکتے۔ عالمی ادارہ صحت کے ایادل سپرابیکوف کا کہنا تھا کہ علاج معالجے کی بنیادی سہولتوں تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ہم تنازع کو لے کر شدید تشویش کا شکار ہیں ۔ اس کا غزہ کے شہریوں کی نفسیاتی صحت پر بہت اثر ہوا ہے اور تنازع کی وجہ سے تقریباً 5لاکھ افراد میں نفسیاتی مسائل کے حوالے سے تشخیص ہو چکی ہے۔ ادارے کے مطابق 20ہزار بچوں کو خوارک کی قلت کا سامنا ہے، جن میں ساڑھے 4ہزار کو خوراک کی انتہائی قلت کی وجہ سے اسپتالوں میں داخل کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے صحت کے ادارے کا کہنا ہے کہ غزہ میں بیماریوں کا پھیلاؤ عام ہے اور پیٹ سمیت دیگر شدید بیماریوں سے متعلق 80 فیصد افراد نے رپورٹ کیا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے علاقہ خالی کرنے کے مسلسل احکام اور خطے میں جاری مسلسل کشیدگی کی وجہ سے غزہ میں انسانی امداد کے کام متاثر ہو رہے ہیں۔