گزشتہ برس 7 اکتوبر کا طوفان الاقصی اب تک اسرائیل پر اس کی تاریخ کا سب سے بڑا حملہ تھا ابتدا میں کہا گیا کہ اب اسرائیل حماس کا صفایا کردے گا دنیا خاموش کھڑی رہ جایے گی ، اور بہت سے لوگ یہ سوال بھی پوچھتے رہے کہ حماس نے ۷ اکتوبر کو اسرائیل کو چھیڑ کر کیا فائدہ اٹھایا الٹا اس کے بیالیس ہزار لوگ شہید ہوچکے ہیں لیکن ایک سال گزر جانے کے باوجود اسرائیل اپنے حواس میں نہیں آسکا ہے اور اب اسرائیل کی حکومت کے ایوانوں میں زلزلہ ہے۔ کابینہ میں شدید اختلافات ہیں۔نیتن یاہو کے خلاف بڑے بڑے احتجاجی جلوس نکل رہے ہیں اس کے وزیر دفاع نے وزیراعظم آفس پر دھاوا بول دیا تھا اور اب اور نیتن یاہو کے استعفیٰ کا مطالبہ شدت اختیار کرگیا ہے۔ اسی اسرائیلی حکومت میں اب جنگ کے بجائے مذاکرات کی باتیں ہورہی ہیں اور نیتن یاہو کو تمام نقصانات کا ذمے دار قرار دیا جارہا ہے اور استعفیٰ کا مطالبہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو حکومت چھوڑ دیں ہم یرغمالیوں کو رہا بھی کرواسکتے ہیں اور مسئلے کا حل بھی نکال سکتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ حماس کو ختم کرنے کا مشن بھی جاری رہے اور ہمارے یرغمالی زندہ واپس بھی آجائیں۔
حماس کی کارروائی کے نتیجے میں مختصر عرصے میں بہت بڑی شہادتیں ہوئی ہیں لیکن اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے کہ حماس کی کارروائی نہ ہوتی تو کیا اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف مظالم سے باز آجاتا۔ پچھتر برس سے اس کے سارے اقدامات تو فلسطینیوں کی نسل کشی والے ہی ہیں۔ لہٰذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا بھر کے مسلم ممالک متحد اور خصوصاً فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہوجائیں، اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو بہت جلد وہ وقت آئے گا جب ان کے ساتھ کوئی نہیں کھڑا ہوگا۔ اس سے پہلے ان کی اپنی حکومتوں کی خیر نہیں ایک طوفان الاقصیٰ اسرائیل کے خلاف اٹھا اس کے اثرات اب مسلم ممالک کے علاوہ امریکا اور ان یورپی ممالک کی حکومتوں پر بھی ہورہے ہیں جو اسرائیلی مظالم کا ساتھ دےر ہے ہیں۔ ۷ اکتوبر کی کارروائی محض چھیڑ چھاڑ نہیں تھی۔ حماس نے تو اعلان کیا ہے کہ ہم اسرائیل کو ختم کرنے تک جدوجد کرتے رہیں گے اور وہ اس پر قائم ہیں جبکہ اسرائیل ہر آنے والے دن ایک دعوے سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔
حماس کا خاتمہ، یرغمالیوں کی رہائی ،غزہ کا پورا کنٹرول کوئی کام نہیں کرسکا۔اس ایک برس میں فلسطینیوں کو بھی بھاری جانی نقصان ہوا ہے اور دو بہت بڑے صدمے بھی ہوئے ہیں ایک اسمٰعیل ہنیہ کو دھوکے سے حملہ کرکے دوسرے ملک کے مہمان کی حیثیت میں قتل کرنا اسرائیل کا گھناونا جرم ہے دوسرے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کا قتل فلسطینیوں کے لیے بڑے صدمے ہیں لیکن حماس حزب اللہ اور دوسری تنظیموں خصوصا حماس نے اسرائیل کو شدید خوف میں مبتلا کررکھا ہے اور سات اکتوبر سے اب تک ڈھائی ہزار سے زاید اسرائیلی فوجی ہلاک اورسات ہزار سے زاید زخمی ہوئے، صرف سات اکتوبر اور اس سے متصل حملوں میں چودہ سو اسرائیلی ہلاک اور تین ہزار زخمی ہوئے قید الگ ہوئے ، جبکہ یرغمالیوں کی تعداد بھی کافی ہے ۔اسرائیل کی جانب سے اسمٰعیل ہنیہ کےقتل پر ایران نے حملہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس پر اسمٰعیل ہنیہ کے قتل کا بدلہ لینے کیلیے دباؤ بھی تھااوراخر کار ایران نے چارسو سے زاید راکٹ اور میزائل اسرائیل پر داغ دیے ،اس سے کوئی بڑی تباہی تو رپورٹ نہیں ہوئی لیکن خود اسرائیلی ذرائع نے تصدیق کی کہ اس سے نقصان ہوا ہے ۔اور سب سے بڑا نقصان تو موت سے سب سے زیادہ خوفزدہ صہیونیوں کو یہ ہوا کہ اپنے مضبوط دفاعی نظام آئرن ڈوم کے باوجود چھہ گھنٹے تک پورے تل ابیب کے لوگ اور اسرائیلی قیادت دس گھنٹے تک شیلٹر میں پناہ لیے رہے پورے اسرائیل میں سائرن بج رہے تھے ،اگر روزانہ بیس پچیس راکٹ اسرائیل کی طرف ماریے جائیں تو یہ موت کے خوف ہی سے مر جائیں گے۔
دوسری طرف سیاسی اور سفارتی اور بین الاقوامی سطح پر فلسطینیوں کا مردہ ہوتا ہوا مسئلہ انقلابی انداز میں زندہ ہوگیا ہے دنیا بھر میں انتخابات اور انتخابی نتائج پر اس مسئلے کا اثر ہوا ہے برطانیہ میں چودہ برس بعد حکمراں پارٹی ہی بدل گئی ، کم و بیش پندرہ مسلمان صرف فلسطین کے مسئلے کی وجہ سے کامیاب ہوئے اورپانچ بالکل نئے لوگوںنے صرف فلسطین کے مسئلے کی وجہ سے الیکشن میں پہلی مرتبہ حصہ لیا اور وہ جیت گئےکینیڈا، امریکا اور کئی مغربی ممالک کے انتخابات اسی مسئلے کے گرد گھوم رھے ہیں ۔ کینیڈا کو اسرائیل کے ساتھ کئی سودے منسوخ کرنا پڑے۔ بھارت میں مودی دوتہائی اکثریت کے حصول میں ناکام رہے ۔اور پاکستان میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ آئین سے کھلواڑ، اور پورے نظام میں بگاڑ کا ڈراما چل رہا ہے ، لگتا ہے اسے جان بوجھ کر طول دیا جارہا ہے تاکہ فلسطین کی طرف توجہ ہی نہ رہے ۔لیکن یہاں بھی دینی سیا سی جماعتیں باقی لے گئیں جماعت اسلامی نے یکم سے سات اکتوبر ہفتہ فلسطین و لبنان کا اعلان کیا تو جمعیت اہلحدیث اور تمام مذہبی سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر کھڑی ہوگئیں ۔البتہ سرکاری شمولیت ڈھیلی ڈھالی رہی۔سب سے زیادہ بیداری غیر مسلم ممالک کے عوام اور سماجی اداروں میں ہے ،فلسطین کے لیے سب ایک آواز ہیں اور پورا یورپ فلسطین میں جنگ بندی نہیں اس کی آزادی کی بات کررہا ہے ۔ اور مسلم ممالک دوریاستی حل اور جنگ بندی کی بات کررہے ہیں ۔طوفان الاقصی نے اسرائیلی معیشت کو بھی ہلا کررکھ دیا ہے اگر امریکا نے اپنے ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے اسرائیل کی بے حساب مدد نہ کی ہوتی تو وہ ڈیفالٹ کر جاتا اس نے اپنی گزشتہ قسط بھی بروقت ادا نہیں کی،امریکی سرپرستی کی وجہ سے شور نہیں مچا۔ اور ابھی اس طوفان کی لہریں بہت دور تک جائیں گی ۔ پاکستان میں بھی یہ مسئلہ جلد بنیادی مسئلہ بنے گا ، قوم کو اب شخصیات اور سیاسی بیانیوں سے نکل کر امت مسلمہ کے وسیع کینوس پر اپنی شکل بنانی ہوگی، آنے والا کل فلسطین کے ایشو کے بغیر نہیں ہوگا۔