ّ26 ویں ترمیم، حکمرانوں کی پھرتی، مولانا کا ٹھیرائو

345

15 ستمبر کی رات کیا سماں تھا صبح سے لے کر رات گئے تک ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز بیٹھے رہے کہ اب ترمیم ایوان میں آئی اور جب فوری منظور ہوگئی۔ لیکن جب یہ اطلاع آئی نواز شریف لاہور واپس چلے گئے، تو سب یہ سمجھ گئے کہ اب یہ ترمیم نہیں آنی پھر دونوں ایوانوں کے اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیے گئے۔ یہ کیا ہوا؟ نواز شریف کے پاس ایسی کیا اہم اطلاعات تھیں جو ن لیگی حکومت اور آصف زرداری کے پاس بھی نہیں تھی کہ وہ ایک دن مزید اسلام آباد میں ٹھیرنے کے بجائے واپس لاہور چلے گئے۔ ہم تو جو مختلف انداز سے خبریں نظر سے گزرتی ہیں اسی کی بنیاد پر کچھ اندازوں سے بات کرتے ہیں اور یہ غلط بھی ہو سکتے ہیں۔ کہیں میں نے یہ خبر یا کسی کے مضمون میں پڑھا تھا ایک بند پیکٹ سب کو ملا کہ یہ وہ آئینی ترمیم ہے جو ایوانوں سے منظور کرانی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ خود وفاقی وزیر قانون نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ انہیں دو روز قبل یہ مسودہ ملا ہے اس میں اہم نکتہ جو زبانی سب کو بتایا گیا کہ ایک آئینی عدالت کا قیام عمل میں آنا ہے تاکہ عدالت عظمیٰ پر سے مقدمات کا بوجھ کم کیا جائے پھر اس آئینی عدالت کے جج کا تقرر وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر کریں گے۔

آئینی ترمیم میں تو اور بھی اہم نکات تھے جس میں بنیادی حقوق کے نکتے پر بھی کوئی تبدیلی تھی اسی طرح یہ بھی سننے میں آیا کہ فوجی عدالت کے فیصلوں کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ اس وقت یہ قانون ہے کہ فوجی عدالت سے دی گئیں سزائوں کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے، اور اب بھی ایسی کئی اپیلیں عدالت عظمیٰ میں موجود ہیں۔ اس پوری ایکسر سائز میں کئی سوالات پیدا ہوئے اور کئی مغالطے بھی سامنے آئے۔ پہلا اہم سوال تو یہی سب لوگ ایک دوسرے سے کررہے تھے کہ یہ آئینی مسودہ کون سی آسمانی مخلوق نے کہاں تیار کیا، دوسرا اہم سوال یہ کہ اتحادی جماعتوں کے درمیان بھی اس حوالے سے کوئی گفتگو، تبادلہ خیال اور افہام و تفہیم نہیں ہوئی تیسرا سوال اس سے بھی زیادہ اہم کہ خود ن لیگ کے وزراء بھی اس ترمیم کی تفصیلات سے لا علم تھے اسی لیے تو وہ مولانا کو مطمئن نہ کرسکے، چوتھا سوال یہ کہ اس ترمیم کی منظوری کے لیے اتنی ہپڑ دھپڑ اور جلد بازی کی کیا ضرورت تھی پھر آئینی عدالت کے ججوں کے تقرر پر ہی شدید اعتراضات سامنے آئے کہ حکومت کی طرف سے لگائے ہوئے جج تو حکومت کی منشاء کے مطابق ہی فیصلے کریں گے اسی لیے ان کے فیصلوں میں شفافیت کا فقدان ہوگا۔

اب اس میں مغالطے کیا تھے پہلی بات تو یہ کہ حکمران اتحاد اس غلط فہمی یا خوش فہمی میں مبتلا رہا کہ ماضی میں جیسے سینیٹ کے انتخاب میں اور جنرل انتخاب میں جو جادوگری ہوئی تھی اسی طرح کا کوئی جادو ٹونہ یہاں بھی چل جائے گا یہی وجہ ہے کہ ایک خبر میں نے پڑھی تھی کہ ایک موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مولانا سے ملاقات کے دوران میز پر ہاتھ مار کر یہ کہا تھا کہ ہم تو آپ سے ایک وسیع مشاورت کررہے ہیں ورنہ تو ہم آپ کی حمایت کے بغیر بھی یہ ترمیم منظور کراسکتے ہیں وزیر قانون کو یہ اعتماد کہاں سے اور کیسے حاصل ہوا اور پھر یہ کہ مولانا سے معاملات طے نہ ہونے کے باوجود وہ ترمیم کیوں منظور نہ کراسکے۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ بھی شاید اس مغالطے میں رہی کہ حکمران اتحاد مولانا سمیت اپنے ہم خیال سیاسی جماعتوں کو ملا کر اپنے نمبر گیم پورے نہ بھی کرسکے تو پھر بھی قریب قریب پہنچ جائیں گے پھر تھوڑی بہت کمی ہوگی تو اسے دیکھ لیا جائے گا۔ آئینی عدالت کے قیام کے حوالے سے مولانا بھی اس کے حامی ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم کسی فرد کو فائدہ پہنچانے کے لیے نہیں ہونی چاہیے۔ اکتوبر کے آغاز ہی سے مولانا سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، وزیر داخلہ محسن نقوی نے پھر مولانا سے اہم ملاقات کی ہے ستمبر کے مہینے میں تو بلاول زرداری ایک دن میں دو مرتبہ مولانا سے ملنے آئے تھے۔

پریکٹس ایند پروسیجر ایکٹ کیا چیز ہے اس کا ترمیم سے کیا تعلق بنتا ہے۔ مختصراً اس کی کہانی بھی سن لیں۔ عدالت عظمیٰ میں بنچ کی تشکیل اور کون سا کیس کس بنچ میں جائے گا اس کا اختیار چیف جسٹس کے پاس رہا ہے۔ عطا بندیال جب چیف جسٹس تھے تو کئی سینئر ججوں کو اس بات پر اعتراض تھا کہ صرف چیف جسٹس کے پاس یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے بلکہ سینئر ججوں پر مشتمل کمیٹی ہونی چاہیے جو بنچ بنانے کے اور بنچوں کو کیس الاٹ کرنے کے فیصلے کرے چنانچہ اتحادی حکومت نے ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اسمبلی سے منظور کرایا جس کے تحت چیف جسٹس کے ساتھ دو سینئر ججوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی جس کا نام پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی رکھا گیا، اس کمیٹی کی تشکیل سے موجودہ حکومت کو یہ اطمینان ہوگیا کہ عطا بندیال جو پرو پی ٹی آئی ہیں اس لیے اب وہ اپنی مرضی سے بنچوں کی تشکیل نہیں کرسکیں گے۔ اس ایکٹ کی منظوری یہ چغلی کھارہی تھی کہ عدالت عظمیٰ میں جج ذہنی طور پر تقسیم ہوچکے ہیں اب حکومت کو یہ اطمینان حاصل ہوگیا کہ اب بنچوں کی تشکیل اور ان میں ججوں کے تقرر میں اس کا بھی عمل دخل ہوجائے گا۔ بات آگے بڑھتی ہے عطا بندیال ریٹائر ہوجاتے ہیں اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی ہیئت بدل جاتی ہے قاضی فائز عیسیٰ کمیٹی کے سربراہ اور ان کے ساتھ کمیٹی میں دو سینئر جج منصور شاہ اور جسٹس منیب آجاتے ہیں۔ جسٹس منیب اور منصور شاہ آپس میں ہم خیال جج ہیں بارہ جولائی کے فیصلے میں بھی یہ دونوں ایک طرف تھے۔ اب حکومت کو پچھتاوا ہونے لگا کہ یہ ایکٹ نہ منظور ہوتا تو آج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تن تنہا بنچوں کی تشکیل کررہے ہوتے۔ بعض اوقات جو گڑھا دوسروں کے لیے کھودا جاتا ہے اس میں خود گرنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اتحادی حکومت نے اپنی غلطی کی اصلاح اس طرح کیا کہ اس ایکٹ میں ترمیم کا قانون ایوان سے منظور کرایا کہ اب پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں ایک سینئر جج اور دوسرا چیف جسٹس کی طرف سے نامزد کردہ جج ہوگا ادھر اسمبلی سے یہ قانون منظور ہوا ادھر ایک گھنٹے کے اندر چیف جسٹس نے کمیٹی کے تیسرے سینئر جج جسٹس منیب کی جگہ جسٹس امین کو رکن بنالیا۔

جب ایک دفعہ جھوٹ بولا جاتا ہے تو اس کو نبھانے کے لیے کئی جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے فارم 47 پر قائم ہونے والی حکومت کو اپنی بقا کے لیے چھبیسویں آئینی ترمیم کی ضرورت پڑگئی۔ اس ترمیم کی منظوری میں مولانا فضل الرحمن اور آئین کی شق 63-A درمیان میں رکاوٹ بن گئے۔ ایک طرف مولانا کو منانے کے لیے ن لیگ پیپلز پارٹی اور اتحادی حکومت میں اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے دن رات ملاقاتوں پر ملاقاتیں کررہے ہیں دوسری طرف عدالت عظمیٰ میں 63-A کی نظرثانی کی درخواست مہینوں سے لگی ہوئی ہے اس کی سماعت کے لیے جب بنچ کی تشکیل کا معاملہ سابقہ کمیٹی کے پاس آیا تو اس اجلاس میں چیف جسٹس شریک ہی نہیں ہوئے پھر اس حوالے سے دوسری کمیٹی کا اجلاس ہوا تو اس میں چیف جسٹس کی اپنی پسند کے جج جسٹس امین الدین تھے لیکن اس اجلاس میں سینئر جج جسٹس منصور شاہ شریک نہیں ہوئے پھر اس طرح دو رکنی کمیٹی نے اپنی مرضی سے بنچ کی تشکیل کردی اس بنچ میں انہوں نے جسٹس منیب کو شامل کرلیا تاکہ فیصلہ متفقہ نہ بھی ہو تو چار ایک کی اکثریت سے آجائے لیکن جسٹس منیب نے اس بنچ میں شرکت سے معذرت کرلی اس طرح چیف جسٹس نے ایک دوسرے جج کو بنچ میں شامل کرلیا اور کیس کی سماعت شروع ہوچکی ہے۔ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے بنچ کی تشکیل پر اعتراض کیا تو بنچ کے سربراہ قاضی فائز عیسیٰ نے اس اعتراض کو مسترد کردیا۔

آئین کی شق 63-A فلور کراسنگ کے حوالے سے ہے کہ کوئی رکن اپنی جماعت کے موقف کے خلاف ایوان میں ووٹ دے گا تو وہ ایک سیشن کے لیے نااہل اور ڈی سیٹ ہو جائے گا اور یہ کہ اس کا ووٹ بھی شمار نہیں ہوگا۔ لیکن اب 3 اکتوبر کو عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آگیا کہ آرٹیکل 63-A پر نظر ثانی کی درخواستیں منظور اور منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا۔

اس فیصلے سے حکومت کو ایک بڑا ریلیف مل گیا کہ انہیں امید ہوگئی ہے کہ اب ان کے نمبر آسانی سے پورے ہو جائیں گے توقع ہے کہ حکومت آئینی اصلاحات کا بل جلد پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم کے معاملے میں جلد بازی قبول نہیں ہے یہ بل اپنی تفصیلات کے ساتھ اس قابل نہیں ہے کہ اس بل کو پاس کیا جائے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے پیش نظر آئینی ترامیم کا بل موخر کردیا جائے اپوزیشن سے بھی کہتے ہیں کہ وہ اپنے احتجاج کو موخر کردے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم کسی قیمت پر بھی حکومت کے ساتھ پلس ہونے پر آمادہ نہیں ہیں، ہماری ایک بھی سفارش پر کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔