حزب اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی آڑ میں اسرائیلی فوج کی طرف سے جنوبی لبنان اور بیروت میں شہری علاقوں کو نشانہ بنائے جانے سے اب تک 10 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور عالمی ادارہ صحت نے صورتِ حال کی سنگینی کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ بے گھر ہونے والوں کو امداد کی فراہمی یقینی بنائی جارہی ہے۔
اسرائیلی فوج اب لبنان اور شام کے درمیان اُن سرحدی مقامات کو بھی خصوصی طور پر نشانہ بنارہی ہے جہاں سے لوگ شام میں داخل ہوتے رہے ہیں۔ دو ہفتوں کے دوران جنوبی لبنان سے پچاس ہزار سے زائد افراد نقلِ مکانی کرکے محفوظ ٹھکانوں کی تلاش میں شام میں داخل ہوئے ہیں۔
انڈیا ٹوڈے سے وابستہ اشرف وانی لبنان میں واحد بھارتی فیلڈ رپورٹر ہیں۔ انہوں نے لبنان اور شام کی سرحد کے علاقے میں دشوار گزار مقامات سے رپورٹنگ کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لبنان اور شام کے درمیان مثنا نامی بارڈر کراسنگ پر اسرائیلی حملوں سے قبل وہاں سے کم و بیش 3 لاکھ 10 ہزار افراد کو نکلنا پڑا۔ یہ لوگ جنوبی لبنان اور اُس کے آس پاس کے علاقوں میں انتہائی نامساعد حالات کے تحت جی رہے ہیں۔
حزب اللہ سے تعلق رکھنے والے لبنانی وزیرِمواصلات علی حامی نے بتایا ہے کہ مثنا کراسنگ کے نزدیک شاہراہ پر اسرائیلی فوج کی بمباری سے 12 فٹ چوڑا گڑھا پڑگیا ہے جس کے باعث وہاں سے گاڑیاں گزر نہیں سکتیں۔
اس علاقے میں ہزاروں گھرانے بھٹک رہے ہیں۔ اُن کے پاس کھانے پینے کی اشیا بھی بہت کم ہیں۔ یہ لوگ پیدل سفر کر رہے ہیں۔ جنوبی لبنان سے نکل کر یہ لوگ شام میں داخل ہونا چاہتے تھے مگر اب ایسا کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ دشوار گزار راستوں سے گزرتے ہوئے یہ لوگ محفوظ مقامات تلاش کر رہے ہیں۔ بہت سے گھرانوں نے پہاڑوں کے دامن میں یا پھر چھوٹے غاروں یا گڑھوں میں پناہ لے رکھی ہے۔ اسرائیلی فضائی حملوں کا خوف ہر وقت لاحق رہتا ہے۔ ان قافلوں میں خواتین بھی ہیں، بچے بھی اور معمر افراد بھی۔ ان سب کی اذیت ناک حالت کی طرف عالمی برادری کی توجہ نہیں۔ اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ صحت کے اہلکاروں کو جب اِن لوگوں کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے کچھ امداد کا اہتمام کیا۔
فرانس، روس، یورپی یونین اور دیگر ادارے یا تنظیمیں لبنان میں اندرونی طور پر بے گھر ہونے والوں کی امداد کے لیے کوشاں دکھائی دے رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے امدادی کارکنوں اور ہیلتھ ورکرز کو نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کیا۔