نیویارک : امریکی اخبار کے مطابق ایران کی جانب سے اس ہفتے بیلسٹک میزائلوں کی بارش نے اسرائیل کے ایئر ڈیفنس سسٹم کو کچھ مقامات پر مفلوج کر دیا ہے ۔
امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق دی وال اسٹریٹ جرنل نے اسیٹلائٹ تصاویر کا جائزہ لینے والے آزاد محققین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایران کی جانب سے اسرائیل پر مزید حملے کیے گئے تو ان کے زیادہ سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، خاص طور پر اگر وہ شہری انفراسٹرکچر یا گنجان آباد علاقوں کو نشانہ بنائیں ۔
رپورٹس میں مزید کہا گیا کہ یہ ایک اہم پہلو ہے جسے اسرائیل اپنے فوجی ردعمل پر غور کرتے وقت مدنظر رکھے گا۔ تہران نے دھمکی دی ہے کہ اگر اسرائیل نے جوابی حملے میں ایرانی علاقوں کو نشانہ بنایا تو وہ اسرائیلی پاور پلانٹس اور آئل ریفائنریز کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی ضرب ہوگی جس کو اسرائیل برداشت کرنے میں ناکام رہے گا ۔
تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ 13 اپریل کے برعکس، جب ایران نے بڑی تعداد میں سست رفتار کروز میزائل اور ڈرون فائر کیے، منگل کے حملے میں تقریباً 180 تیز رفتار بیلسٹک میزائل شامل تھے، جو جنگ کی تاریخ میں سب سے بڑے حملوں میں سے ایک تھا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر ایران کے جدید ترین بیلسٹک میزائل تھے، جیسے فَتّاح-1 اور خیبر شکن کا نام دیا گیا ہے ۔
جرمنی کے انسٹیٹیوٹ برائے امن و سلامتی پالیسی میں اسلحہ کنٹرول کے شعبے کے سربراہ اولرِچ کُہن کا کہنا تھا کہ جتنا میزائل تیز ہوتا ہے، اسے روکنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے، یہ ایک سادہ فزکس کا اصول ہے ۔ بیلسٹک میزائلوں کے خلاف دفاع کرنا یقیناً بہت مشکل ہوتا ہے، اور خاص طور پر اگر کسی ہدف پر بڑی تعداد میں میزائل فائر کیے جائیں، کیونکہ اس سے اینٹی میزائل دفاعی نظام کو مفلوج کرنے کا موقع مل جاتا ہے جیسا اسرائیل میں ہوا ہے ۔
کیلیفورنیا کے مڈل بَری انسٹیٹیوٹ برائے بین الاقوامی مطالعات میں کام کرنے والے پروفیسر جیفری لیوس کے مطابق اسیٹلائٹ تصاویر میں منگل کے حملے میں جنوبی اسرائیل کے نیوتیم ایئر بیس کو نشانہ بنتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جو کہ اسرائیل کے F-35 جیٹ طیاروں کا مرکز ہے تقریباً 32 ایرانی میزائل اس ایئر بیس کے احاطے میں گرنے میں کامیاب ہو گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 32 میزائل بہت زیادہ ہوتے ہیں ، ہمارے ذہن میں ایئر ڈیفنس کی کارکردگی کے بارے میں مبالغہ آرائی ہوتی ہے۔ ہم میں یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ میزائل دفاعی نظام زیادہ مؤثر یا دستیاب ہوتے ہیں، جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ جبکہ اسرائیل امریکا کے ساتھ مل کر تیار کردہ جدید ترین ایرو 2 اور ایرو 3 میزائل دفاعی نظام استعمال کرتا ہے، لیکن یہ انٹرسیپٹر محدود تعداد میں دستیاب ہوتے ہیں اور ایرانی میزائلوں کے مقابلے میں زیادہ مہنگے ہوتے ہیں، بیلسٹک میزائل کو روکنے کے لیے ایک ہدف پر متعدد انٹرسیپٹرز استعمال کرنے پڑتے ہیں۔
دی وال اسٹریٹ جرنل نے نوٹ کیا کہ ایک وسیع اور مضبوط ایئر بیس کو نقصان پہنچانا زیادہ مشکل ہے جو صحرا کے وسط میں ہو، بہ نسبت انفرااسٹرکچر سائٹس کے جو گنجان آباد علاقوں میں ہوں ۔
لیوس کا کہنا تھا کہ اسرائیلیوں کو تل ابیب کی دفاع کی زیادہ فکر ہو گی ، دوسری طرف، انہیں آخر میں وہی مسئلہ درپیش ہو گا کہ ایرانی آخر میں دفاعی نظام کو مفلوج کر سکتے ہیں۔ اب اسرائیل کو ایران کی طرف بڑھنے سے پہلے سوچنا ہوگا کہ ایران کتنے منٹوں میں اسرائیل کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔