اعزاز کس کو ملے گا؟

342

اسرائیل کی درندگی پائوں پھیلا رہی ہے۔ غزہ، لبنان، یمن غرض جہاں اس درندے کا دل چاہ رہا ہے خون کی ہولی کھیل رہا ہے اور مسلم خون کی ارزانی ہے۔ مسلم حکمرانوں کی بے دھیانی اور خاموش ترجمانی ہے اور ایک جانا اَن جانا خوف مسلم حکمران کے دلوں میں بیٹھا ہے جو اسرائیل اور اُس کے حواریوں کو بے خوف کیے ہوئے ہے۔ اسامہ بن لادن کی شہادت پر ایٹمی قوت کے حامل پاکستان کے حکمرانوں کی مہر بہ لب زبانوں نے کفار کے حوصلوں کو مہمیز دی اور یوں اُس کے لاڈلے اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ، حسن نصر اللہ، ماہر الاسد سمیت کتنے ہی جہاد کے علمبرداروں کو شہادت کی تسبیح میں پرو دیا۔ اسرائیل، غزہ، لبنان، یمن، شام جہاں اس کا دل چاہے دندناتا حملہ آور ہورہا ہے، کون ہے جو اس کو روکے ٹوکے، مسلم حکمران تو قرآنی تعلیمات ہی کو بھول چکے ہیں یا اُن کا ایمان دل میں بُرا ماننے کی حد تک کمزور ہوچکا ہے۔ قرآن میں تو ربّ حکم دیتا ہے اے عقل رکھنے والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی (کا سامان) ہے اُمید ہے کہ تم (اس کی خلاف ورزی سے) بچو گے۔ (البقرہ) مگر اپنی زندگی جانِ و اقتدار کو محبوب رکھنے والے مسلم حکمراں قصاص والی زندگی کی روح لازوال کو بھول چکے ہیں اور ڈرے سہمے ان ہی سے خیر کے طلب گار ہیں جو ان کے لہو کے پیاسے ہیں، جو قرآن کی زبانی مسلمانوں کے کبھی دوست نہیں بن سکتے ہیں۔

موجودہ مسلم حکمرانوں کی حالت سیدنا موسیٰؑ کے حواریوں کی سی ہوگئی ہے جو گھر سے نکلنے کو تیار نہیں ہوئے تھے، ربّ عزت تو صاف صاف فیصلہ صادر فرماتے ہیں ’’وہ تمہیں تھوڑا ستانے کے سوا تمہیں کوئی نقصان ہرگز نہیں پہنچا سکیں گے اور اگر وہ تم سے لڑیں گے تو بھی تمہیں پیٹھ دکھا جائیں گے پھر انہیں کوئی مدد بھی نہیں پہنچے گی۔ (آل عمران) قرآن کی یہ تعلیم ان بزدل دشمنوں کا راز دل آشکار کرنے کو تو کافی ہے مگر ایمان پختہ ہے تو یہ نسخہ زوردار بھی ہے اور کار آمد بھی۔ اگر ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں۔ جو مسلم حکمرانوں کے ایمان و قلب کو جکڑے ہوئے ہے۔ ہاں ربّ پاک تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ تمہارا ربّ اپنی رحمت کا سایہ تم پر پھیلادے گا اور تمہارے اس معاملے کے لیے سارے ساز وسامان مہیا کردے گا (کہف) ایسا ہوا ہے جب سرزمین افغانستان پر امت مسلمہ کے نوجوان سربکف ہوئے تو قرآن کی تعلیمات کی تفاسیر دنیائے عالم نے دیکھی کہ پہلے روس اور پھر امریکا پیٹھ دکھا کر بھاگا اور سازو سامان کا اللہ نے بندوبست بھی کیا کہ ظالموں کو آپس میں نبرد آزما کرکے ایک سے ہتھیار مجاہدین اسلام کو دلادیے۔ اب مسلم حکمرانوں میں وہن کی بیماری گھر کر گئی ہے زندگی سے محبت موت سے نفرت، سو مسلم امہ اب کفر کے لیے دعوت شیراز بن گئی ہے اور وہ ٹوٹے جارہا ہے مگر ایسا دور بھی زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکے گا۔

اسلام کو غالب آنا ہے، یہود اور اُن کے سرخیل کو مٹ جانا ہے، یہ ہونا ہے ہو کر رہنا ہے۔ نام نہاد مسلم حکمرانوں سے بڑھ کر یہود، ہنود کو اس فرمان مصطفوی پر یقین ہے مگر یہ کب ہوگا اس کا تاج کس کے سر پہ سجے گا کون خوش نصیب اس کا تاجدار ہوگا، یہ نصیب کے ہیں فیصلے، مگر محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل کا عروج اس کو زوال کی طرف دھکیل رہا ہے۔ اب وقت دور نہیں اہل ایمان و یقین والی قیادت اُبھرے گی، کفر کی قوتیں ڈوبیں گی، ان شاء اللہ۔ اب وقت شہادت ہے آیا۔

ممتاز اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک جو اِن دنوں پاکستان کے سرکاری دورے پر ہیں انہوں نے کہا کہ غزہ کے مسلمان اسرائیل کے خلاف جہاد کرکے فرض کفایہ ادا کررہے ہیں۔ مسلمان ممالک کو ناٹو کی طرح کا اتحاد تشکیل دینا چاہیے۔ ناٹو کے 32 ممالک ہیں اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہو تو تمام پر حملہ تصور ہوتا ہے۔ 57 اسلامی ممالک کو بھی ناٹو کے اصولوں پر مبنی ایک اتحاد تشکیل دینا چاہیے۔ اس طرح مسلمان زیادہ طاقتور ہوں گے لیکن افسوس کہ مسلمان تقسیم کا شکار ہیں، یہ وقت کی پکار ہے جو اسلامی اسکالر نے بلند کی ہے۔ اس بات میں قوت کا راز ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ تیری بات مکہ، مدینہ، ویسے بھی اسرائیل کا وقت اجل اب دور نہیں، یہ ہم ہی نہیں کہہ رہے ہیں تاریخ اس کی گواہی دے رہی ہے۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود باراک نے عبرانی جریدے ’’یدیعوت اجرونوٹ‘‘ میں اپنے چھپنے والے اہم مضمون میں لکھا ہے کہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ یہودی ریاست کی عمر کبھی بھی 80 سال سے زائد نہیں ہوئی ہے۔ سوائے دو مواقع کے ایک سیدنا دائودؑ کی حکومت اور دوسری حشمونائیم کے دور میں ان دو ادوار میں بھی آٹھویں دھائی کے بعد ریاستوں کی بنیادوں پر زلزلہ آگیا تھا اور پھر عرصہ بعد ان کا خاتمہ ہوگیا۔ پہلی ریاست سید سلیمانؑ کی تھی موجودہ اسرائیل ریاست 14 مئی 2028ء کو 80 سال کی ہورہی ہے، تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرانے کے لیے چند سال کے فاصلے پر ہے، اس کا پنجہ گردن اسرائیل کو دبوچنے کے لیے کمربستہ ہے، یہ اعزاز کس کو نصیب ہوتا ہے مسلم حکمرانوں کے اتحاد کو یا ہٹلر کو؟