مذہبی رواداری کا غلط تصور

342

جو لوگ آسمانی مذاہب کے ماننے والے ہیں انھیں ان کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کرایا جائے اور ان کے تقاضوں کی طرف انھیں توجہ دلائی جائے اور دین حق ان پر واضح کیا ہے۔ یہ قرآنی طریقہ ہے۔ اس سے دعوت کی راہیں کھلتی ہیں۔ اسی پس منظر میں حسب ذیل آیت کو بھی دیکھنا چاہیے:
’’اے نبیؐ! کہو اے اہلِ کتاب، آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنالے۔ اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں‘‘۔ (اٰل عمرٰن: 64)
اس آیت کو اس بات کی دلیل سمجھا جاتا ہے کہ مذاہب کے درمیان جو اقدار مشترک ہیں ان کی دعوت دی جائے۔ بناے اختلاف سے تعرض نہ کیا جائے، ہر ایک کو اس کے طریقے پر عمل کی اجازت ہو، اس کے درست یا نا درست ہونے سے بحث نہ کی جائے۔ اسے مذاہب کے سلسلے میں ’رواداری‘ یا عدم تعصب جو بھی کہا جائے، اسلامی نقطۂ نظر نہیں کہا جاسکتا۔ یہ اس سلسلے کی اسلامی تعلیمات اور اس کے دعوتی مشن کے خلاف ہے۔ اس سے قطع نظر خود آیت سے اس کی تردید ہوتی ہے۔ اس میں اہل کتاب کے غلط طرز عمل پر تنقید کی گئی ہے اور انھیں اسلام کی دعوت دی گئی ہے۔

اس میں اہل کتاب کو ’کلمہ سواء‘ کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ ’کلمہ سواء‘ توحید ہے، جو اہلِ کتاب اور مسلمانوں کے درمیان مشترک ہے اور جو تمام مذہبی کتابوں کی بنیاد ہے۔ لیکن توحید کے قائل ہوتے ہوئے بھی یہود نے عزیرؑ کو ابن اللہ قرار دیا۔ ہوسکتا ہے ان میں سے ایک طبقے کا یہ عقیدہ ہو، لیکن یہود نے اس سے اپنی برأت ظاہر نہیں کی۔ اسی طرح نصاریٰ نے تثلیث کی راہ اختیار کی، جو توحید کے سراسر خلاف ہے۔
توحید کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ خداے واحد کی عبادت ہو اور کسی دوسرے کو خدائی کا مقام نہ دیا جائے، جب تمھیں اس سے انکار نہیں ہے تو تمھاری عبادت شرک سے پاک ہونی چاہیے۔
اللہ واحد پر ایمان کے بعد اس کا کوئی جواز نہیں ہے کہ کسی دوسرے کو اپنا رب اور فرماں روا تسلیم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ قانون دینے والا ہے اور اسی کے قانون کو بالادستی حاصل ہے، لیکن تم نے اپنے احبار و رہبان کو قانون سازی کا حق دے رکھا ہے۔ وہ جس چیز کو حلال کہیں وہ تمھارے نزدیک حلال ہے اور جسے حرام قرار دیں وہ تمھارے لیے حرام ہے۔ اس طرح تم نے احبار و رہبان کو ارباب کا مقام دے رکھا ہے۔ (التوبۃ: 31) اپنے اس غلط رویّے کو ترک کرکے تمھیں خداے واحدکے احکام کی اتباع کرنی چاہیے۔ اگر تم اس کے لیے تیار نہیں ہو تو گواہ رہو کہ ہم اللہ کے فرماں بردار اور اس کے احکام کے تابع ہیں۔ یہ در حقیقت اسلام کی دعوت ہے۔ ہرقل (شاہ روم) کو آپ نے جو مکتوب اسلام کی دعوت قبول کرنے کے لیے لکھا تھا اس میں اسی آیت کا حوالہ تھا۔ (قرطبی، الجامع لاحکام القرآن)