اسلام آباد(آن لائن+مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ نے آرٹیکل63 اے کیس کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے نظرثانی کی اپیلیں متفقہ طور پر منظور کرلیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اپیل منظور کی جاتی ہے، تفصیلی فیصلہ بعد میں سنایا جائے گا۔بی بی سی کے مطابق یہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد آئینی اور سیاسی تجزیہ کار اسے حکومت کے لیے ایک بڑے ریلیف کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور اْن کی رائے ہے کہ اب بظاہر حکومت اِس پوزیشن میں آ گئی ہے کہ وہ مجوزہ آئینی ترامیم بشمول آئینی عدالت کے قیام جیسی ترامیم کو پارلیمان سے منظور کرا پائے گی۔جمعرات کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا 5 رکنی لارجر بینچ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیلوں پر سماعت کی بنچ کے دیگر ارکان میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل شامل تھے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے علی ظفر سے استفسار کیا کہ آپ کی اپنے مؤکل سے ملاقات ہوگئی جس پر انہوں نے جواب دیا جی بالکل گزشتہ روز ملاقات ہوئی لیکن ملاقات علیحدگی میں نہیں تھی، جیل حکام بھی موجود رہے۔بیرسٹر علی ظفر نے عدالت سے استدعا کی کہ عمران خان عدالت سے خود مخاطب ہونا چاہتے ہیں، بانی پی ٹی آئی وڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں گزارشات رکھنا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں ہدایت دی کہ اچھا آگے چلیں، دلائل شروع کریں۔ علی ظفر نے کہا کہ نہیں پہلے عمران خان عدالت میں گزارشات رکھ لیں، پھر میں دلائل دوں گا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر آپ سینئر وکیل ہیں، آپ کو معلوم ہے عدالتی کارروائی کیسے چلتی ہے۔ عمران خان کے وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ میرے موکل کو بنچ پر کچھ اعتراضات ہیں، عمران خان کی وڈیو لنک پر پیشی کی اجازت نہیں دیتے تو انہوں نے کچھ باتیں عدالت کے سامنے رکھنے کا کہا ہے، میں نے اپنے مؤکل سے ہی ہدایات لینی ہیں، ہدایت کے مطابق چلنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر آپ صرف اپنے مؤکل کے وکیل نہیں، آفیسر آف دا کورٹ بھی ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم بھی وکیل رہ چکے ہیں، اپنے مؤکل کی ہر بات نہیں مانتے تھے، جو قانون کے مطابق ہوتا تھا وہی مانتے تھے، جس پر علی ظفر نے کہا کہ اگر عمران خان کو اجازت نہیں دیں گے تو پیش نہیں ہوں گے، حکومت کچھ ترامیم لانا چاہتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سیاسی گفتگو کر رہے ہیں تاکہ کل سرخی لگے جس پر علی ظفر نے کہا کہ آج بھی اخبار کی ایک سرخی ہے کہ آئینی ترمیم 25 اکتوبر سے قبل لازمی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اس بات کا معلوم نہیں۔علی ظفر نے کہا کہ حکومت آئینی ترمیم لا رہی ہے اور تاثر ہے عدالت ہارس ٹریڈنگ کی اجازت دے گی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب آپ حد کراس کر رہے ہیں، ہم اس بات پر آپ پر توہین عدالت لگا سکتے ہیں، کل آپ نے ایک طریقہ اپنایا، آج دوسرا طریقہ اپنا رہے ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آپ کی عزت کرتے ہیں، آپ ہماری عزت کریں، ہارس ٹریڈنگ کا کہہ کر بہت بھاری بیان دے رہے ہیں، ہارس ٹریڈنگ کیا ہوتی ہے؟ آپ کو ہم بتائیں تو آپ کو شرمندگی ہوگی،عدالتوں کا مذاق بنانا بند کریں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالت نے 63اے پر اپنی رائے دی تھی کوئی فیصلہ نہیں۔بانی پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے سماعت کا بائیکاٹ کرتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کا کہنا ہے بینچ کی تشکیل درست نہیں، حصہ نہیں بنیں گے۔علی ظفر نے چیف جسٹس سے مکالمہ کیا کہ آپ اگر کیس کا فیصلہ دیتے ہیں تو مفادات کا ٹکرائو ہوگا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جو کچھ بول رہے ہیں اس کو سنیں گے اور نہ ہی ریکارڈ کا حصہ بنائیں گے۔علی ظفر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کہتے ہیں بینچ قانونی نہیں، اس لیے آگے بڑھنے کا فائدہ نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بار بار عمران خان کا نام کیوں لے رہے ہیں، نام لیے بغیر آگے بات کریں، آپ دلائل دیں شاید ہم یہ نظر ثانی درخواست مسترد بھی کر سکتے ہیں جس پر علی ظفر نے بطور عدالتی معاون دلائل کا آغاز کر دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ کسی کو ووٹ کے حق کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانے دیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ججز منتخب نہیں ہوتے انہیں اپنے دائرہ اختیار میں رہنا چاہیے، آپ تو جمہوریت کے بالکل خلاف بات کر رہے ہیں، تاریخ یہ ہے کہ مارشل لا لگے تو سب ربڑ سٹیمپ بن جاتے ہیں،تاریخ میں تو یہ ہے کہ آمریت آئے تو سب 10سال چپ کر کے بیٹھ جاتے ہیں، جیسے ہی جمہوریت آتی ہے، سب شروع ہو جاتے ہیں، میگنا کارٹا کے بعد برطانوی جمہوریت سے آج تک وہاں کئی لوگ ناخوش ہیں، اس کے باوجود وہاں جمہوریت چل رہی ہے، یہاں بھی جمہوریت چلنے دیں۔وکیل علی ظفر نے چیف جسٹس سے مکالمہ کیا کہ میرا مشورہ ہوگا آپ تمام ججز آپس میں مل کر بیٹھیں، ججز رولز بنا لیں، سکون ہو جائے گا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ججز کے درمیان کوئی لڑائی نہیں ہے، ایسا نہیں ہے کہ ادارہ ٹوٹ گیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں مفت کا مشورہ دے رہے ہیں تو ایک مفت کا مشورہ ہمارا بھی ہے، آپ تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر معاملات طے کر لیں۔بعدازاں عدالت عظمیٰ نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے نظرثانی درخواستیں منظور کرلیں۔ نظرثانی درخواستیں متفقہ طور پر منظور کی گئیں، جس کے بعد منحرف ارکان پارلیمنٹ کا ووٹ شمار کیا جاسکے گا جبکہ عدالت عظمیٰ نے 0-5 سے فیصلہ دیا۔بعد ازاںپاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور نامزد سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجا نے کہا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کے آج کے فیصلے سے عدالت عظمیٰ نے آئینی ترمیم کے لیے راہ ہموار کردی، نئی آئینی عدالت میں جسے چیف جسٹس لگانے جارہے ہیں وہ بھی نظر آرہا ہے۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن ہے آج کا فیصلہ پاکستان کے آئین کے خلاف آیا ہے، پی ٹی آئی کی نشستیں آج انہیں دینے کا فیصلہ آیا ہے جنہیں پاکستان کے عوام نے نامنظور کردیا تھا، آج کا فیصلہ آرٹیکل 8 کی بھی خلاف ورزی ہے، آج کے بعد اگر آئینی ترامیم ہوجاتی ہے تو جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے سب آئینی ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آئینی ترامیم کے بعد لوگوں کو اٹھا کر جیل میں ڈال دیا جائے گا اور سالہا سال ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا، یہ ریاست آج کس طرف جارہی ہے؟ یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے، نیشنل سیکورٹی کے نام پہ آج سے اس ملک میں لوگوں کو اٹھایا جائے گا، آج کا یہ فیصلہ ترامیم کرنے والوں کے لیے راہیں ہموار کردے گا۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ یہ جو آئینی ترمیم ہورہی ہے اس کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑے گا، اگر کوئی ملٹری کورٹ گرفتاری کا حکم دیتی ہے تو ہائی کورٹ اس پر کچھ نہیں کرسکے گی یہ سب آئینی ترمیم کا وہ پیکیج ہے جس کے لیے عدالت عظمیٰ نے راہ ہموار کی ہے، نئی آئینی عدالت میں جس کو چیف جسٹس لگانے جارہے ہیں وہ بھی نظر آرہا ہے، یہ کٹھ پْتلی عدالت بنائی جارہی ہے 63 اے کا جو فیصلہ آیا ہے ہمیں اس پر تحفظات ہیں۔