کیا تیسری عالمی جنگ شروع ہونے والی ہے؟

281

کیا ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری لڑائی کو ہم تیسری جنگ ِ عظیم کا نقطہ آغاز سمجھ سکتے ہیں؟ یہ سوال بہت سوں کے ذہنوں میں کلبلا رہا ہے۔ یہ فطری امر ہے کیونکہ معاملات جس تیزی سے بگڑ رہے ہیں اور جس طور کئی ممالک اس لڑائی میں ملوث ہوتے جارہے ہیں اْسے دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت کوئی بہت بڑی عالمی لڑائی چِھڑ سکتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ شدید خرابیوں سے دوچار ہے۔ اسرائیل نے غزہ میں حماس کو غیر موثر کرنے کے بعد جنوبی لبنان میں حزب اللہ کو بھی بہت حد تک کمزور کردیا ہے۔ ایسے میں ایران کے لیے براہِ راست حملے کرنا لازم ہوگیا تھا۔ ایران نے گزشتہ شب اسرائیل پر 200 سے زیادہ بیلسٹک میزائل داغے۔ ان میں سے بیش تر جھپٹ لیے گئے۔ بعض میزائل غیر آباد علاقوں میں گرے۔ ایران کی طرف سے براہِ راست حملہ کہیں تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ تو نہیں۔ ایک طرف روس اور یوکرین کے درمیان انتہائی خوں ریز جنگ چل رہی ہے اور دوسری طرف ایران اور اسرائیل ایک بڑے مناقشے کی ابتدا کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ دنیا بھر میں یہ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ اگر معاملات کو مزید بگڑنے سے نہ روکا گیا تو یہ تنازع تیسری عالمی جنگ کا نقطہ آغاز ثابت ہوسکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے تبصروں کی بھرمار ہے اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی تیسری عالمی جنگ کے امکان پر کھل کر بات کر رہے ہیں۔
اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے اس کے جواب میں ایران کی طرف سے 200 میزائلوں کا داغا جانا ذرا بھی حیرت انگیز نہیں۔ دنیا یہ سب کچھ دیکھ کر خوفزدہ ہے۔ گزشتہ شب اسرائیل کی فضا ایران کے داغے ہوئے میزائلوں کی روشن سے جگمگا گئی۔ ایرانی حملوں کو روکنا اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام کے بس کی بات نہ تھی۔ امریکا نے اپنی بحریہ کے اینٹی میزائل سسٹم کو ایکٹیویٹ کیا اور اسرائیل کی بھرپور معاونت کی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا اس مناقشے میں محض زبانی اور تکنیکی طور پر نہیں بلکہ باضابطہ عملی شکل میں ملوث ہے۔ مشرقِ وسطیٰ شدید خرابی کی زد میں ہے۔ ایسے میں لوگ پریشانی کے عالم میں سوچ رہے ہیں کہ کہیں تیسری عالمی جنگ ہی نہ چِھڑ جائے۔ جو کچھ اسرائیل کر رہا ہے یا یوں کہیے کہ جو کچھ اْسے کرنے کی چْھوٹ دی جارہی ہے اْسے دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ معاملات محض خرابی کی طرف جائیں گے۔ بڑے سوشل میڈیا پورٹلز پر تیسری عالمی جنگ کے امکان کے حوالے سے تبصروں کی بھرمار ہے۔ ان تبصروں میں دنیا کی خرابی کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ اگر عالمی جنگ چِھڑگئی تو کسی ایک یا دو خطوں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ دنیا بھر میں خرابیاں پھیلیں گی۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران درجنوں سوشل میڈیا پورٹلز پر تیسری عالمی جنگ کو ٹاپ ٹرینڈ کا درجہ حاصل رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے کروڑوں صارفین تیسری عالمی جنگ کے موضوع میں دلچسپی ہی نہیں لے رہے بلکہ پسند و ناپسند کے اظہار کے ساتھ تبصروں کی یلغار بھی کیے ہوئے ہیں۔
امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ جنگ کا خطرہ ہر طرف ہے۔ امریکا کی بدقسمتی یہ ہے کہ اِس کی باگ ڈور دو نااہل افراد (صدر بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس) کے ہاتھوں میں ہے اور یہ دونوں ہمیں تیسری عالمی جنگ کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ کمزوری حامل اور لوگوں کی خوشنودی کے حصول کی خواہش پر مبنی پالیسیوں کا یہی نتیجہ نکلا تھا۔
ری پبلکن پارٹی کی ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار کملا ہیرس کے خلاف پروپیگنڈے میں تیسری عالمی جنگ کا زاویہ بھی شامل کردیا ہے۔ ری پبلکن لیڈر تْلسی گبرڈ کہتی ہیں کہ اگر ہم نے کملا ہیرس کو صدر منتخب کیا تو وہ ہمیں تیسری عالمی جنگ کی دلدل میں دھکیل دیں گی۔ تْلسی گبرڈ پہلے بھی کہہ چکی ہیں کہ اگر ہم نے کملا ہیرس کو کمانڈر انچیف کی حیثیت سے کام کرنے کو موقع دیا تو وہ معاملات کو کنٹرول نہیں کر پائیں گی۔ یہ تو ہوا کملا ہیرس کے منتخب ہونے کی صورت میں امریکا کو تیسری عالمی جنگ میں دھکیلنے کا معاملہ۔ انتخاب ابھی دور ہے اور نتائج بھی بہت دور مگر دنیا کو یہ ڈر ہے کہ تیسری عالمی جنگ کسی بھی وقت شروع ہوسکتی ہے۔ کوئی بھی لمحہ انتہائی خطرناک شکل اختیار کرکے معاملات کو ایک ایسی جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ لیکس فریڈمین پوڈ کاسٹ کے میزبان لیکس فریڈمین کہتے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ جتنا اب ہے پہلے کبھی نہ تھا۔ اگر کوئی عالمگیر جنگ ہوئی تو دنیا تباہ ہوجائے گی۔ ایسے میں ہمیں اپنے اپنے قائدین کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ عقل سے کام لیں۔
ایران نے اسرائیل پر جو میزائل داغے ہیں وہ اسماعیل ہنیہ، حسن نصراللہ اور پاس دارانِ انقلاب کے کمانڈر عباس نِلفوروشاں کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے تھے۔ یہ حملے اس لیے بھی لازم تھے کہ اسرائیل نے لبنان میں زمینی کارروائیاں شروع کردی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ ایک سال سے انتہائی نوعیت کی خرابیوں کا شکار ہے۔ کسی بھی وقت عالمی جنگ کے چِھڑ جانے کا خدشہ موجود ہے۔ پورا خطہ وار زون میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ایک سال کے دوران غزہ، جنوبی لبنان اور یمن کی طرف سے اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائیاں کی جاتی رہی ہیں۔ بحیرہ احمر اور خلیج ِ عدن کے علاقے میں بھی امریکا اور اسرائیل کے جنگی و تجارتی جہازوں پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ عالمی طاقتیں معاملات کو دبانے اور درست کرنے سے بھی گریزاں ہیں۔ (انڈیا ٹوڈے)