ٹرمپ کی منطق یا امریکی اشرافیہ کی سوچ

229

امریکی نفسیات اور اسلام و مسلم دشمنی کا اندازہ اس کے رہنماؤں اور صدارتی امیدواروں اور اہم لیڈروں کی زبانوں اور لہجوں سے بھی ہوتا ہے اور عمل تو دنیا دیکھتی ہے، ان کے نزدیک امریکا میں کوئی خرابی نہیں ہے ساری خرابیاں مسلمانوں میں ہیں، چنانچہ 9/11 پر افغانستان اور پاکستان پر چڑھائی کردی اس سے پہلے ہزاروں میل دور بیٹھے صدام کو امریکا کے لیے خطرہ قرار دیکر ڈبلیو ایم ڈیز کی جھوٹی رپورٹ پر عراق اور مشرق وسطیٰ کو تباہ کیا اور اب امریکا صدارتی امیدوار سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہتا ہے اگر کسی امریکی صدارتی امیدوار کو نقصان پہنچایا تو جواب میں ایران یا اس کے کسی شہر کو مکمل طور پر تباہ کردینا چاہیے۔ ٹرمپ نے کہا کہ اگر میں صدر ہوتا اور ایران ہمارے کسی صدارتی امیدوار کو قتل کی دھمکی دیتا تو میں سخت ردعمل دیتا۔ سابق صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ میں ایران کو کہتا کہ اگر ہمارے کسی صدارتی امیدوار کو نقصان پہنچایا تو تمہارے پورے ملک یا کسی بڑے شہر کو تباہ کردیں گے۔ آج کل امریکی صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں اور ان امیدواروں میں سنجیدگی کا عنصر اس قدر عنقا ہے کہ ٹرمپ اپنے ملک کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے مسائل کا سبب دوسرے اور خصوصاً اسلامی ممالک میں تلاش کررہے ہیں، اور بات بھی جنگ اور تباہی کی اس کا واضح مطلب ہے کہ امریکی اشرافیہ نے اپنی قوم میں جنگی جنون کو پختہ کر رکھا ہے، اور یہ اس قسم کی بات بار بار بلکہ اتنی بار کرتے ہیں کہ امریکی قوم اب جنگ کو اتنا ضروری سمجھتی ہے کہ اسے کبھی یہ پوچھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی کہ امریکی عوام کے ٹیکس کے پیسوں کو جنگوں میں کیوں جھونکا جاتا ہے، اور یہ سوال تو ان کے ذہنوں سے ہذف کر ہی دیا گیا ہے کہ صرف مسلمان ہی دہشت گرد کیوں ہے۔ اس کا سبب بھی امریکی میڈیا ہے جو مسلمانوں کو دہشت گرد بنا کر پیش کرتا ہے۔ ہر دہشت گردی کو مسلمان سے جوڑتا ہے، امریکی میڈیا کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ اگر کسی واقعہ میں کوئی مسلمان ملوث ہو تو مسلم دہشت گرد کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور اگر کوئی غیر مسلم، خصوصاً عیسائی یا یہودی کسی واقعے میں ملوث ہو تو ان کی شناخت بھی چھپائی جاتی ہے اور اگر شناخت واضح ہوجائے تو نفسیاتی مریض قرار دیدیا جاتا ہے۔
امریکی سیاستدان، لیڈرز، حکمران اور میڈیا اپنے صدارتی انتخابات کے دوران یہ اندز اختیار کرتا ہے لیکن اس قدر زوردار پروپیگنڈا اور تکرار کی جاتی ہے کہ سارا سال اس کا اثر لوگوں کے دماغ میں رہتا ہے، کہیں کوئی حادثہ یا تخریبی کارروائی ہو جائے امریکیوں کے ذہن کسی مسلمان یا کسی اسلامی تنظیم کا نام سننے اور اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، کیونکہ بار بار دہشت گرد اور مسلمان ایک ساتھ بولا جاتا ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان کی شان نزول بھی یہی ہے کہ ریاست شمالی کیرولینا کے امریکی انٹیلی جنس ادارے نے ٹرمپ کو قتل کرنے کی ایرانی سازش سے خبردار کرتے ہوئے انہیں محتاط رہنے کی ہدایت کی ہے۔ علاوہ ازیں خود ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایران کی طرف سے جان کا شدید خطرہ ہے۔ ایکس (ٹوئٹر) پر بیان میں ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایران کی طرف سے دھمکیاں مل رہی ہیں۔ میری جان کو ایران کی جانب سے شدید خطرہ ہے۔ ایران نے پہلے بھی ایسی کوششیں کی ہیں جو کامیاب نہیں ہوئیں۔ سابق امریکی صدر کا مزید کہنا تھا ایران کی طرف سے میری جان کو لاحق خطرے کو امریکی فوج دیکھ رہی ہے اور انتظار کررہی ہے۔ اس قسم کے بیانات کی کسی جانب سے تصدیق نہیں ہوئی ہے لیکن امریکیوں کی نفسیات بن گئی ہے کہ ایسے بیانات کو ان کا میڈیا ہوا دیتا ہے اور عوام یقین بھی کرلیتے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کا معاملہ بھی پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرح ہے، انہیں اپنے خلاف ہر سازش میں امریکی ہاتھ نظر آتا ہے اور ہر چوری میں زرداری اور شریف خاندان نظر آتا ہے وہ اس کی تکرار اتنی زیادہ کرچکے کہ ان کے پیروکار اس پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں، ٹرمپ اور ان میں فرق یہ ہے کہ ٹرمپ کبھی ایران یا اس کے کسی لیڈر اور ادارے سے مدد نہیں مانگے گا۔ اور عمران خان امریکا کو سازش کا سرغنہ کہتے ہیں پھر امریکا سے اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کو برا کہتے ہیں اور اسی سے مذاکرات چاہتے ہیں، ٹرمپ کے بیان کو حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کے قتل کے تناظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے، اسرائیل کے لیے حسن نصراللہ ایران کے نمائندے تھے اس لیے اس نے ایرانی ہدف سمجھ کر ہی انہیں شہید کیا ہے، گویا یہ امریکا اور اسرائیل کا اتحاد ہے اور ایران نے بھی کہا ہے کہ حسن نصراللہ پر حملے کا حکم امریکا سے آیا تھا۔
امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کا اپنے ملک کے کسی صدارتی امیدوار کو نقصان پہنچنے یا دھمکی دینے کے امکان پر سفارتی آداب کے منافی بیان دینا امریکی ذہنیت کو عیاں کرنے کے لیے کافی ہے۔ امریکا نے بعینہٖ یہی سب کچھ کیا ہے اپنے ملک کے معاملے پر پہلے بھی کیا، الخبر بم دھماکے کے فوراًً بعد افغانستان پر میزائل حملے کیے، 9/11 کے فوراً بعد افغانستان پر چڑھائی کردی تھی اور تمام بین الاقوامی قوانین کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی کی تھی۔ اس معاملے میں تو پوری دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ اب ٹرمپ کا بیان کسی نئی جنگ کا نقطہ آغاز لگ رہا ہے۔