مشرق وسطیٰ کا آتش فشاں

302

ایران کا پیمانہ ٔ صبر آخر کار اس وقت لبریز ہوگیا جب ایک سال سے جاری جنگ اور کشیدگی میں اسرائیل کے تین اہداف کی بات عام ہوئی۔ جس کے مطابق اسرائیل نے حماس کے راہنما اسماعیل ہنیہ اور حزب اللہ کے قائد حسن نصر اللہ کو راہ سے سے ہٹانے کے بعد ایران کے رہبر انقلاب آیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف بڑھنا شروع کیا ہے۔ یہ ایران کی ریڈلائن تھی اور اس سے پہلے کہ اسرائیل یہ لکیر عبور کرتا ایران نے پیشگی حملوں کا حق استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کو بلیسٹک اور ہائپر سونک میزائلوں کا نشانہ بنایا۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ ان حملوں میں اسرائیل کے تحفظ اور سلامتی کا نظام آئرن ڈوم ناکام قرار پایا اور ماضی کی طرح میزائلوں کو فضا میں ہی ناکارہ نہ بنایا جا سکا۔ ایران کی طرف سے داغے گئے ان میزائلوں نے اسرائیل کی آبادی کو جان بچانے کے لیے بنکروں اور شیلٹروں میںگھسنے پر مجبور کیا۔ شاید لمحہ بھر کو انہیں احساس ہوا ہو کہ یہ وہی انسانی جان جسے ان کی فوج غزہ میں بے دردی سے چھیننے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ اسرائیل کے ذرائع نے تسلیم کیا ہے کہ ایرانی حملوں سے ان کے کئی ائر بیسز کو نقصان پہنچا ہے۔ ایران کی طرف سے ہونے والا یہ حملہ اسرائیل کے لیے سنگین انتباہ تھا کہ اگر اس نے حماس اور حزب اللہ کے خلاف استعمال کیا جانے والا یہ فارمولہ ایرانی قیادت پر لاگو کیا گیا تو ایران کا ردعمل تباہ کن ہوگا۔ ایران کی طرف سے یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ ان کا انتقام تمام ہوگیا ہے اگر اسرائیل نے کوئی مہم جوئی کی تو اس کا ردعمل بہت سخت ہوگا۔ ایران کے اس حملے نے اسرائیل کی طاقت اور رعب ودبدبے کا بت پاش پاش کر دیا۔ اسرائیل ایران کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ ابھی وہ ایران کی حمایت یافتہ نان اسٹیٹ ایکٹرز یعنی حزب اللہ، حوثی اور حماس کو نشانہ بنا کر اس کے پر کُتر رہا ہے۔ یہ وہ غیر ریاستی طاقتیں ہیں جن کے ذریعے ایران اسرائیل کو کئی اطراف سے نشانہ بنا سکتا تھا لیکن یوں ہورہا ہے کہ اسرائیل اسی دلدل میں دھنس کر رہ جائے۔ اس جنگ میں امریکا بھی کود پڑتا ہے تو پھر تاک میں بیٹھے روس اور چین بھی دو دو ہاتھ کرنے کی خاطر بالواسطہ طور پر کھیل میں شامل ہو سکتے ہیں۔
اکتوبر کا یہی مہینہ تھا جب گزشتہ برس حماس کے مجاہدین ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ کے نام پر ابابیل کے کنکروں کی طرح اسرائیل پر ٹوٹ پڑے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب اسرائیل عرب دنیا پر دھاک بٹھا چکا تھا۔ کچھ اسرائیل کو تسلیم کرتے جا رہے تھے اور کچھ اس کا ارادہ باندھنے میں مصروف تھے۔ یہ تسلیم ورضا کسی برابری کی بنیاد پر نہیں تھی بلکہ اس کا مقصد مسلم دنیا کا یک طرفہ سرینڈر تھا۔ مسلمان دنیا اور عرب ممالک فلسطین نام کے ملک اور فلسطینی نام کے عوام سے لاتعلق ہو کر اپنی معاشی اور عسکری ضرورتوں کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کے سوا اس نئے معاہدے کا کوئی مقصد نہیں تھا۔ ابراہیمی تہذیب کے نام پر یہ حقیقت میں اسرائیل کے وجود کو جواز دینے کی نہیں بلکہ اس کی مکمل بالادستی کے قیام کا منصوبہ تھا۔ اس بدلے ہوئے منظر میں فلسطینی ریاست کا نام ونشان تھا نہ دور دور تک کوئی امکان حد تو یہ اس میں مسجد اقصیٰ اور گنبدصخریٰ جیسی مقدس علامتوں کا وجود بھی تحلیل ہوتا ہوا نظر آرہا تھا۔ عرب ممالک فلسطین سے اس طرح اپنا دامن بچا اور چھڑا رہے تھے کہ جس طرح ریشمی پیرہن والے کانٹوں سے بچ کر چلنے اور نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسلم دنیا کے اندر سیاسی اور انتظامی منظر بھی اسی مقصد کے تحت تراشے جارہے تھے۔ جہاں کوئی رکاوٹ نظر آتی اسے ایک مہرے کی طرح بساط سے باہر اُچھال دیا جاتا۔ کئی سیاسی قتل اسی ضرورت کے تحت ہوئے۔ اس منظر میں حماس نے موت میں زندگی کا راستہ اختیار کیا۔ حماس کے فدائین نے اسرائیل کے خوف کی تنی ہوئی اس چادر میں نقد جاں پیش کر کے چھید کرنے کا راستہ اپنایا۔
حماس پہلی بار اپنی جنگ کو اسرائیل کی حدود تک پھیلانے میں کامیاب ہو چکی تھی۔ سیکڑوں اسرائیلی اس آپریشن میں مارے گئے اور سیکڑوں گرفتار ہو کر یرغمال بن گئے۔ اسرائیل کے رعب اور دبدبے کو چیلنج کیا جانا کیسے گوار ا ہو سکتا تھا۔ اسرائیل نے غزہ کے محدود علاقے اور آبادی کو حقیقی معنوں میں ایک مقتل میں بدل ڈالا۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے چالیس ہزار کے قریب افراد جاں بحق ہوئے جن میں اکثریت بچوں کی ہے۔ انفرا اسٹرکچر تباہ ہوگیا اور ایک سال یوں گزر گیا کہ غزہ کے لوگوں کا لہو پانی کی طرح بہتا چلا جا رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مسلمان دنیا بے حسی اور بے بسی کی تصویر بنی بیٹھی رہی بلکہ مسلمان حکمرانوں نے خود اپنے معاشروں اور ملکوں میں اسرائیل کے خلاف آواز بلند کرنے پر غیر اعلانیہ پابندی نافذ کر دی۔ اسرائیل کے جور وستم سے زیادہ دلخراش حقیقت یہ ہے کہ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کی زباں بندی کی گئی ہے۔ ایسا ماضی میں نہیں ہوا۔ آج مسلمان دنیا پر توہین اسرائیل کا قانون غیر اعلانیہ طور پر نافذ ہے اور حالات یہی رہے تو مسلمان ممالک قانون سازی کرکے اسے اعلانیہ شکل بھی دیں گے۔ اسرائیل کے جبر وستم کو ’’مہم جوئی‘‘ یعنی ایڈونچر کا نام دینا بھی دستور ِ زباں بندی کے نفاذ کا مظاہرہ ہے۔ غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ایڈونچر نہیں بلکہ ریاستی دہشت گردی ہے۔ مسلمان دنیا میں عرب اسرائیل جنگوں کے بعد ایران وہ واحد ملک ہے جس نے بطور ریاست اسرائیل کو چیلنج کیا ہے اور ایسے وقت میں جب مسلمان دنیا اسرائیل کے آگے ڈھیر ہو تی جارہی ہے مزاحمت کے یہ شعلے دورس اثرات کے حامل ہیں۔