عالمی برادری اور اس کے مرکزی ادارے اقوام متحدہ سمیت غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی روکنے میں ناکام ہوگئے ہیں یا ان کی نیت اور ارادہ بھی نہیں ہے۔ یہ سوال اس لیے بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ اسرائیل کی حماس سے جنگ کو ایک سال پورا ہونے والا ہے اور شہری آبادی پر جدید اسلحے سے بمباری جاری ہے۔ امریکا کی ثالثی میں جنگ بندی کے لیے ہونے والے مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکے ہیں اور اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ ثالث خود (امریکا) فریق بنا ہوا ہے اور اسرائیلی جارحیت کو حق دفاع قرار دے رہا ہے۔ امریکا نے اقوام متحدہ کو مفلوج کیا ہوا ہے، ادارے کی بے بسی سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے بیانات سے صاف ظاہر ہوتی ہے۔ صرف ایک فرد ہے عالمی سیاست کے بت خانے میں آواز لگا رہا ہے کہ اسرائیل جنگی جرائم کا مجرم ہے، اس کو روکو، اسرائیل کی جرأت یہاں تک ہوگئی ہے کہ اس نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر ملک میں ان کے داخل ہونے پر پابندی لگادی ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ نے اس حکم کا جواز اس ڈھٹائی سے بیان کیا ہے کہ جو اسرائیل پر حملے کی مذمت نہیں کرسکتا وہ اسرائیلی سرزمین پر قدم رکھنے کا مستحق نہیں۔ انتونیو گوتریس دہشت گردوں، عصمت دری کرنے والوں اور قاتلوں کی حمایت کرتے ہیں۔ امریکا کی جانب سے اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کو مفلوج کرنے کی مزاحمت دیگر قوتیں نہیں کرسکی ہیں، جبکہ امریکی صدر سے لے کر ٹرمپ تک کملا ہیرس سے لے کر جیک سلیوان اور انتونی بلنکن تک یک آواز ہو کر کہہ رہے ہیں کہ امریکا اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اور کھڑا رہے گا، اور اس کے دفاع میں اٹھائے گئے ہر قدم کی حمایت کرے گا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیل کو دفاع کا حق حاصل ہے، حماس مذاکرات کی میز پر نہیں آرہی ہے، ایران نے جو کیا وہ دہشت گردی ہے، امریکا اور اسرائیل کھل کر یہ بات کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل کے خلاف جو بھی لڑ رہا ہے وہ دہشت گرد ہے۔ حماس دہشت گرد تنظیم ہے اس لیے اس کی حمایت کرنے والے نہتے فلسطینی بھی دہشت گرد ہیں، اسرائیل شہری آبادیوں کو بمباری کرکے پورے غزہ کو کھنڈر بنادے وہ اپنے حق دفاع میں کررہا ہے جبکہ عملاً مظلوم فلسطینی دہشت گردی کا شکار ہیں۔ فلسطینیوں باالخصوص غزہ کے مسلمانوں کو کسی بھی جگہ سے عملی جنگی مدد نہیں ہے۔ صرف اس بات کی توقع ہے کہ ایران اور مشرق وسطیٰ میں اس کے حمایتی تنظیمیں اور ادارے مدد کرسکتے ہیں جس میں حزب اللہ سرفہرست ہے۔ ایران اور حزب اللہ غزہ کی جنگ کو پھیلنے سے روکنے کے لیے بہت احتیاط کا مظاہرہ کررہے تھے جس کا اظہار کرتے ہوئے ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے اسرائیل کو خبردار کرتے ہوئے کیا کہ ’’ہمارے ساتھ تنازع میں نہ پڑو، حالیہ حملہ اسرائیلی جارحیت کا ردعمل ہے، صہیونی جارحیت کا سخت جواب دیا‘‘۔ انہوں نے براہِ راست نیتن یاہو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’یاد رکھو، جنگ نہیں چاہتے لیکن جارحیت کا منہ توڑ جواب دینا جانتے ہیں‘‘۔ لیکن اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو اپنے ملک میں غیر مقبول ہونے کے باوجود جنگ کی آگ کو بھڑکانے پر لگے ہوئے ہیں۔ جنگ بندی مذاکرات کو انہوں نے ناکام بنایا، لیکن بے غیرتی اور ڈھٹائی سے حماس کو ذمے دار قرار دیا۔ نیتن یاہو نے جنگ کو غزہ سے جنوبی لبنان تک وسیع کردیا ہے۔ یہ بات واضح نظر آرہی ہے کہ اسرائیل جنگ کو شام تک وسیع کرے گا اس لیے کہ وہ چاہتا ہے کہ خطے میں اسرائیل کے خلاف ہر نظریاتی فکر اور عقیدے کے وابستگان کو ختم کردے۔ امریکی نشریاتی ادارہ سی این این اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور اسرائیل کے ذہن کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’اسرائیلی وزیراعظم ایران پر حملے کی منصوبہ بندی میں سنجیدہ ہیں، جس پر چند روز میں عمل درآمد کردیا جائے گا۔ نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ ایران نے حملہ کرکے بڑی غلطی کی، اسے قیمت چکانی ہوگی، انہوں نے سیاسی اور عسکری قیادت کے اجلاس میں کہا کہ ایران کی حکومت ہمارا عزم نہیں سمجھتی، اسرائیل غزہ، مغربی کنارے، لبنان، یمن اور شام میں برائی کے محور سے لڑ رہا ہے ہم پر جو حملہ کرے گا اس پر بھی کیا جائے گا۔ بظاہر نیتن یاہو اسرائیل میں غیر مقبول ہے لیکن اس کی طاقت کو عالمی طاقتوں سمیت کوئی بھی روکنے کی صلاحیت یا ارادہ نہیں رکھتا۔ اس وجہ سے عالمی مبصرین اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ یہ جنگ عالمی جنگ میں بھی بدل سکتی ہے، اسرائیل اور ایران غیر اعلانیہ طور پر جوہری طاقت بھی رکھتے ہیں، اسرائیل نے ایران کے تحمل کے باوجود اسے اس جنگ میں گھسیٹ لیا ہے۔ ایران عالمی سطح پر امریکا اور ناٹو مخالف اتحاد شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن ہے اور روس اور چین کے ایران سے تعلقات اہمیت رکھتے ہیں۔ اس لیے مشرق وسطیٰ کا یہ تنازع اسرائیل ایران جنگ میں بدلا تو کیا چین اور روس عملی طور پر بھی غیر متعلق رہیں گے؟ اکتوبر میں اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس اسلام آباد میں ہورہا ہے جبکہ غزہ کی لگی ہوئی آگ بجھنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ کیا اس آگ کے تماشائی بھی تماشا بن جائیں گے؟