پاکستانی قوم کی بدنصیبی ہے یا اس کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کہ اس کے حکمران وہ اپنے ملک کے عوام ہی کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ سلوک بھی وہی کرتے ہیں۔ اپنی عیاشیوں کے لیے خود قانون بناتے ہیں اور خود ہی اپنے مفاد میں فیصلے کرتے ہیں، کبھی ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کرلیتے ہیں، آئی ایم ایف کے نام پر قوم پر ٹیکسوں کی بھرمار ہے، اور مراعات یافتہ طبقہ خود ٹیکس دینے کو تیار نہیں، زرعی شعبہ اور بڑے زمیندار مزے کررہے ہیں، قانون ساز اداروں میں بھی یہی بیٹھے ہوئے ہیں لہٰذا اپنی مرضی کے قوانین بنا لیتے ہیں، قرض لیتے وقت سخت شرائط بھی مان لیتے ہیں کہ کون سا خود اپنی جیب سے ادا کرنا ہے۔ اب نامعلوم کہاں سے آن ٹپکنے والے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے خبردار کیا ہے کہ ٹیکس نہ دینے والوں پر ایسی پابندیاں لگائیں گے کہ وہ بہت سے کام نہیں کرسکیں گے۔ غیر ملکی میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ حکومت اب نان فائلر کی اصطلاح ختم کرنے جارہی ہے، ٹیکس نہ دینے والوں پر ایسی پابندیاں لگائیں گے کہ وہ بہت سے کام نہیں کرسکیں گے، حکومت کے پاس لوگوں کے طرز زندگی کا ڈیٹا موجود ہے، کس کے پاس کتنی گاڑیاں ہیں، کتنے بیرون ملک سفر، سب معلومات ہیں۔ ان کا بیان تو بڑا زوردار ہے لیکن وہ یہ کریں گے کیسے، ان کے ارد گرد سارے ٹیکس چور ہی جمع ہیں اخبار کی خبر تو یہ ہے کہ ٹیکس نہ دینے والوں کو کہیں کا نہیں چھوڑیں گے، ممکن ہے سرخی نکالنے والے نے مسالہ تیز کردیا ہو خبر میں تو اتنا ہی ہے کہ ٹیکس نہ دینے والوں پر ایسی پابندیاں لگائیں گے کہ وہ بہت سے کام نہیں کرسکیں گے۔ ویسے ٹیکس نہ دینے والے تو اس ملک میں مزے ہی مزے کررہے ہیں، خود وزیر اعظم فرما چکے بلکہ بار بار فرما چکے کہ ایف بی آر پندرہ ہزار ارب کے ٹیکس وصول کرنے میں ناکام رہا، تو سب سے پہلے تو ایف بی آر کو کہیں کا نہ چھوڑیں۔
جہاں تک عوم اور تنخواہ دار آدمی کی بات ہے تو یہ ہر ہر چیز پر ٹیکس دے رہے ہیں، تنخواہ پر ٹیکس خود بخود کٹتا ہے، پٹرول، بجلی، گیس، سبزی، دوائیں، بینک سے لیں دین، موبائل فون کا بل، بسکٹ، ڈبل روٹی ہر چیز پر ٹیکس لیا جارہا ہے۔ اب تک تو فائلر نان فائلر کی تقسیم کرکے لوگوں کو لوٹا جارہا تھا، اب نان فائلر کا زمرہ ختم کررہے ہیں لیکن یہ ختم کرکے نیا جال لائے اس کا ابھی نہیں پتا۔ یہ جو پابندیاں لگانے کی بات کررہے ہیں اور اپنی معلومات کا سکہ بٹھا رہے ہیں، یہ بھی بتا دیں کہ یہ معلومات حکومت کو اب ملی ہیں کہ کون کتنی گاڑیاں رکھتا ہے اور کتنے بیرون ملک سفر کرتا ہے، یا یہ معلومات پہلے سے حکومت کے پاس تھیں، ہماری اطلاعات کے مطابق حکومت کو نہ صرف پہلے سے سب معلوم ہے بلکہ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ کس نے کس طرح ٹیکس بچایا ہے، حکومت کو یہ بھی معلوم ہے کہ کس کس ادارے اور کن کن شخصیات کو حکومت نے خود ٹیکس استثنا دے رکھا ہے۔ اور وہ ادارے اور لوگ اتنے طاقتور ہیں کہ حکومت ان سے سوال بھی نہیں کرسکتی، ہوائی بیان دینا تو بڑا آسان ہے سو وزیر خزانہ نے دے ڈالا۔
وزیر خزانہ نے اپنی دھمکی کے بعد عوام کو تھپکی بھی دی ہے کہ تنخواہ دار اور مینوفیکچرنگ طبقے پر جو اضافی بوجھ ڈالا گیا تھا اسے کم کیا جائے گا، ریٹیلرز، ہول سیلرز، زراعت اور پراپرٹی کے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا، ان شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی بات تو قوم کئی عشروں سے سن رہی ہے لیکن ٹیکس نیٹ تنخواہ دار اور کمزور طبقے کو ہی کس رہا ہے۔ دراصل تنخواہ دار طبقہ اور متوسط طبقہ جو اب سطح غربت پر آچکا ہے وہ اب کچھ کرنے کے قابل نہیں رہا ہے بلکہ یہ طبقہ جو ہر چیز پر ٹیکس دینے پر مجبور ہے، اب کہیں کا نہیں رہا، وزیر خزانہ کی معلومات میں اضافہ کرے دیتے ہیں کہ لوگ بجلی کے بلز کی وجہ سے خود کشیاں کررہے ہیں، بجلی کا بل دینے کے بعد عام آدمی کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتا، شاید وزیر خزانہ ان ہی لوگوں کے بارے میں یہ کہہ رہے تھے کہ کہیں کا نہیں چھوڑیں گے، وہ لوگ تو کہیں کے نہیں رہے۔
وزیر خزانہ کے پاس بھی اس سوال کا جواب نہیں ہے جو آئی ایم ایف نے حکومت سے پوچھا ہے کہ اسے قرض واپس کیسے کریں گے؟ اس کا جواب وہ یہ دے رہے ہیں کہ حکومت کے پاس اب معاشی اصلاحات کے سوا کوئی چارہ نہیں، ٹیکس نیٹ سے باہر کے شعبوں کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانا ہوگا، تو ایسا اب تک کیوں نہ کیا اور چونکہ ان کو حکومت میں لانے والی قوت وہی ہے جس پر ٹیکس نہیں لگ سکتا تو آئندہ بھی ایسا نہیں ہوسکے گا۔
گزشتہ برس محصولات میں 29 فی صد اضافے کے باوجود ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 9 فی صد رہی، اس سے کوئی معیشت ترقی نہیں کرتی، وہ کہتے ہیں کہ اگر چاہتے ہیں کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہو تو اس کے لیے ملکی معیشت میں بنیادی اصلاحات لانا ہوں گی۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنیادی اصلاحات کیوں نہیں لاتے کس نے روک رکھا ہے، اب تک کیوں نہیں لائے اصلاحات؟ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ امریکا ماضی میں بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرتا رہا ہے، امید ہے مستقبل میں اس میں اضافہ ہوگا، دوست ممالک سے جو قرض لیا ہے اس میں چین کا حجم سب سے زیادہ ہے، جی ایس پی پلس پروگرام پاکستانی برآمدات کے لیے لائف لائن کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ قرض پروگرام 37 ماہ پر مشتمل ہے، آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر نہیں ہوئی، مرحلہ وار عمل کے نتیجے میں منظور ہوا، ماضی کے پروگراموں پر عمل نہ کرنے کے باعث ساکھ اور اعتماد کا فقدان ہے، موجودہ حکومت پرعزم ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے مطابق معاشی اصلاحات لانی ہیں، گزشتہ مالی سال کے اختتام پر روپے کی قدر میں استحکام آیا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھے ہیں جس کے نتیجے میں مہنگائی میں بتدریج کمی ہوئی۔ ان کی ساری باتیں بالکل اسی طرح ہیں جیسی پچھلے وزرائے خزانہ کرتے تھے، دوستوں اور قرضوں پر انحصار اور باتیں بڑی بڑی، قوم کو کب تک دھمکیاں دیکر لوٹتے رہیں گے۔ جب تک حکمراں طبقے کا طرز زندگی سادہ نہیں ہوگا قوم مزید قربانی دینے کو تیار نہیں۔