حسن نصر اللہ کا قتل: اسرائیل فلسطین کی آزادی نہیں روک سکتا

312

اقوام متحدہ میں بیٹھ کر نیتن یاہو نے حزب اللہ سربراہ حسن نصر اللہ کو قتل کرنے احکامات جاری کیے جس کے بعد انہوں نے خود عالمی صحافیوں کو بتایا کہ آئندہ چند منٹوں میں ایک اہم شخبری دنیا کو ملے گی اور پھر دنیا بھر کے میڈیا کو اسرائیل نے بتایا کہ حسن نصر اللہ، ان بیٹی زینب حسن نصر اللہ اور ایرانی جنرل کو شہید کر دیا گیا ہے۔ عالم اسلام کے گلے سے یہ بات نیچے نہیں اُتر رہی ہے کہ 1992ء سے اسرائیل کو مطلوب حسن نصر اللہ اور ان کے جہادی کونسل کے تمام ارکان جن کو صرف 15 دنوں میں تلاش کر کے شہید کر دیا گیا اور ان کی اصل لوکیشن تک پہنچنا اسرائیل کے لیے آسان سے آسان تر کس نے بنا دیا۔ ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے ڈپٹی کمانڈر عباس نلفوروشن بھی شہید ہوئے ہیں جو حسن نصر اللہ سے جنگی صورتحال پر اہم گفتگو کرنے آئے تھے۔

فرانسیسی میڈیا نے اس حقیقت کو کچھ اس طرح دنیا کے سامنے کھول کر رکھا دیا کہ حسن نصر اللہ کو ان کے قریب ترین بکھرے پھولوں نے رستے میں ایسے کانٹے بچھائے جس نے ان کو شہادت کے مرتبے پر پہنچا دیا۔ لیکن یہ کہنا ہر گز درست نہیں ہو گا یہ قتل ابراہیم رئیسی، اسماعیل ہنیہ سے کوئی الگ قتل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کی جانب سے تیار کی گئی اعلان کردہ 67 افراد کی فہرست میں شامل تھے لیکن اس قتل کے لیے اسرائیل کو اعلان کے مطابق درست معلومات فراہم کرنے میں اہم کر دار کس نے ادا کیا جس کی مدد سے ہدف بنایا گیا۔ فوری طور پر حزب اللہ کا سربراہ نعیم قاسم کو بنایا گیا ہے لیکن حزب اللہ کے نئے ممکنہ سربراہ ہاشم صفی الدین نصراللہ کے کزن اور ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سابق کمانڈر قاسم سلیمانی کی بیٹی کے سسر ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایرانی شہر قم میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1994 ہی سے انہیں پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل کے بریگیڈیئر جنرل امیچائی لیون نے حزب اللہ کے سربراہ کو شہید کیے جانے سے متعلق بتایا کہ جنگی طیاروں نے بیروت میں ہدف پر 100 اقسام کے بارود برسائے اور ہدف کو ایسے نشانہ بنایا گیا کہ ہر 2 سیکنڈ کے بعد بارود اسی نشانے پر گرایا گیا۔ اسرائیل نے حزب اللہ سربراہ حسن نصر اللہ کو قتل کر نے کے بارے میں بتایا کہ ان کو شہید کرنے میں ٹھوس خفیہ معلومات نے سب سے اہم کردار ادا کیا اور دوسری اہم چیز جس کا خیال رکھا گیا کہ جب طیارے ہدف کی جانب بڑھ رہے ہوں یا بارود کو ہدف پر پہنچایا جارہا ہو تو حسن نصراللہ اور دیگر بچ نہ سکیں۔ اسرائیل کے بریگیڈیئر جنرل نے بتایا کہ 11 ماہ سے پائلٹ الرٹ تھے اور پروازیں نا صرف جاری تھیں بلکہ جنگ کے اختتام تک جاری رہیں گی کیونکہ کام ابھی مکمل نہیں ہوا۔ حزب اللہ ہیڈکوارٹر پر حملے میں حسن نصراللہ کی شہادت، اسرائیلی حملے کی ویڈیو بھی اسرائیل نے جاری کی ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ حسن نصر اللہ کی موت اسرائیل کا بہت سے متاثرین کے لیے ’انصاف پر مبنی اقدام‘ ہے انہوں نے کہا کہ ان متاثرین میں ’ہزاروں امریکی، اسرائیلی اور لبنان کے شہری شامل ہیں‘۔ بائیڈن نے اس بات پر زور دیا کہ امریکا حزب اللہ، حماس، حوثیوں اور کسی بھی ایرانی حمایت یافتہ دہشت گرد گروپ کے خلاف اپنے دفاع کے لیے اسرائیل کے حق کی ’مکمل حمایت‘ کرتا ہے۔ امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے پنٹا گون کو ہدایت کی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی دستوں کی دفاعی پوزیشن کو بڑھایا جائے تاکہ ’جارحیت کو روکا جا سکے‘۔

اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی موت کو ’تاریخی اقدام‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل نے حساب برابر کر دیا۔ امریکا میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے بعد اسرائیل واپسی پر نیتن یاہو نے کہا کہ ’اسرائیل اپنے دشمنوں پر حملے جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے‘۔ نیتن یاہو نے یہ بھی کہا کہ ’اسرائیلی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے حسن نصر اللہ پر حملہ ضروری تھا۔ لیکن اسلامی ممالک آج بھی اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایران کے ساتھ تعلقات رکھنے والے مسلح گروہوں کی بہتات ہے، جن میں غزہ میں حماس، لبنان میں حزب اللہ، یمن میں حوثی، اور عراق، شام اور بحرین میں سرگرم دیگر گروپ شامل ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ ایران ہی مزاحمتی تحریکوں کی ہر ممکن مدد کر رہا ہے۔ ایران کے برعکس مزاحمت کے محور کے نام سے جانے جانے والے ان میں سے بہت سے گروہوں کو مغربی ممالک نے دہشت گرد گروہ قرار دیا ہے، ان کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ ’خطے کو امریکا اور اسرائیل سے لاحق خطرات سے بچایا جائے‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ایران سمجھتا ہے کہ اسے سب سے بڑا خطرہ امریکا سے ہے اور پھر اس کے فوراً بعد اسرائیل ہے، جسے ایران خطے میں امریکا کے گماشتے کے طور پر دیکھتا ہے‘۔ ایران کی طویل المدتی حکمت ِ عملی نے یہ ناقابل یقین نیٹ ورک بنایا ہے جو اسے اپنی طاقت دکھانے کی اجازت دیتا ہے۔ تہران نے 45 سال قبل ملک میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد سے عسکریت پسند گروپوں کی حمایت کی ہے، اور وہ 1980 کی دہائی کے اوائل ہی سے حکومت کی قومی سلامتی کی حکمت عملی کا ایک نمایاں حصہ بن گئے تھے۔

حسن نصراللہ کی ہلاکت پر یمن کے حوثیوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ حزب اللہ کے سربراہ کی موت کا سوگ منا رہے ہیں اور حزب اللہ کے لیے ان کی ’حمایت بڑھے گی اور مضبوط ہو گی۔ دوسری جانب حماس کا ایک بیان میں کہنا ہے کہ ’قابضین کے جرائم اور قتل و غارت گری سے فلسطین اور لبنان میں مزاحمت کے عزم میں اضافہ ہوگا۔ خطے میں بڑی جنگ ناگزیر تو نہیں لیکن گزشتہ 24 گھنٹوں میں رونما میں ہونے والے واقعات کے سبب اس کے امکانات ڈرامائی طور پر بڑھ گئے ہیں۔ بی بی سی کے نامہ نگار برائے سیکورٹی امور فرینک گارڈنر کہتے ہیں کہ ’زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ہمیں اب اس تنازع میں عراق اور شام میں موجود ایران کے حمایت یافتہ عسکری گروہ مزید متحرک نظر آئیں گے‘۔ لیکن ایک خیال یہ بھی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے حالات کا دارومدار ایرانی ردِعمل پر ہوگا۔ ہو گا کیا اس کے لیے وقت کا انتظار ہے۔’آج سے پہلے شاید کبھی ایران پر (اسرائیل کو) ردعمل دینے کا اتنا شدید دباؤ نہ آیا ہو‘۔ ’لیکن سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کیا کر سکتا ہے جس کا کوئی ایسا ردِعمل سامنے نہ آئے جو اس کے لیے زیادہ نقصان دہ ہو‘۔ کامران بخاری کہتے ہیں کہ ماضی میں بھی ایران محورِ مزاحمت کو اسرائیل کے خلاف متحرک کر چکا ہے لیکن ’اب وہ اور کیا کر سکتے ہیں جو مزید طاقتور ردِعمل تصور ہو‘۔