وفاقی حکومت آجکل معیشت کی بحالی کے دعوے کرنے میں مصروف ہے اور اعدادوشمار کے الجھاؤ کے ذریعہ ثابت کرنا چاہ رہی ہے کہ مہنگائی کم ہو رہی ہے، اس کے لیے سنگل ڈیجٹ کی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے ، عام آدمی تو یہ نہیں جانتا کہ سنگل ڈیجٹ کیا ہوتا ہے وہ تو آٹے دال روٹی سبزی، پیٹرول، اور بجلی کے نرخ دیکھتا ہے اور اپنی آمدنی، آمدنی بڑھتی نہیں اور قیمتیں بڑھتی ہی جاتی ہیں ۔ تمام بل ادا کرنے اور مکان کا کرایہ وغیرہ دینے کے بعد عام آدمی کے پاس کھانے، بچوں کی تعلیم،اور صحت کی مد میں کچھ نہیں بچتا ،بیماری اور سنگین بیماری کی صورت میں تو وہ سڑک پر آجانا ہے۔حتی کہ اس کے پاس مرنے کے بعد کے وسائل بھی نہیں ہوتے غریب کا مسئلہ صرف کچن نہیں ہوتا مرنے پر قبر بھی خریدی جاتی ہے اور درجنوں اخراجات ہوتے ہیں ،بدقسمتی سے کوئی اسپتال میں داخل ہوجائے تو مکمل بل کی ادائیگی تک میت نہیں ملتی۔ معاشی بہتری کے حوالے سے حکومت بعض اقدامات کر تو رہی ہے لیکن اس کے دوسرے اقدامات ان اصلاحی اقدامات کو غیر موثر کرر ہے ہیں۔ مثال کے طور پروفاقی حکومت نے 6 وزارتیں ختم کرنے، 2 ضم کرنے اور سرکاری اداروں میں اصلاحات لانے پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔ یہ خوش آئند ہے لیکن دوسری طرف ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات کے بارے میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ خود ہی اپنی تنخواہ بڑھائے گی وزارت خزانہ کو زحمت نہیں دی جائے گی۔اس کے علاوہ وزرا، ارکان اسمبلی ، بیورو کریسی۔ ججز وغیرہ کی تنخواہوں اور مراعات میں اسی دوران اضافے بھی ہوگئے، مزید کام صوبائی حکومتیں دکھا رہی ہیں ، پہلے سندھ حکومت نے بھی اربوں روپے کی گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا تھا ،اب حکومت پنجاب نے ن لیگ کے پارلیمانی سیکریٹریز اور پروٹوکول کیلئے کروڑہا روپئے سے لگژری گاڑیاں خریدنے کی منظوری دیدی ہے ، یہ رقوم صوبائی بجٹ سے دی جائیں گی لیکن یہ بھی تو قوم کا پیسہ ہے، اس سے قبل پارلیمنٹ ارکان اسمبلی کی مراعات اور فضائی ٹکٹ الاؤنس میں اضافے کی منظوری دے چکی تھی ، یہ رقوم الگ الگ بظاہر بہت زیادہ نہیں لگتیں لیکن اگر ان اضافوں اور مراعات کو جمع کریں تو پتا چلے گا کہ قوم کے خزانے پر بہت بڑا ڈاکا مارا جارہا ہے اور یہ مسلسل رہے گا ہر ماہ رہے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ نے 6 وزارتیں ختم کرنے دو کو ضم کرنے کے بارے میں جو کچھ بتایا ہے اس کے مطابق کئی وزارتوں میں خالی ڈیڑھ لاکھ اسامیاں ختم کی جا رہی ہیں،یہ آسامیاں خالی تھیں تو ان پر اخراجات بھی نہیں تھے تو ان کے ختم ہونے سے کیا فرق پڑے گا۔ جو چیز بہت واضح ہے وہ تو یہ ہے کہ ایک ایک محکمے میں سیکریٹری، ڈپٹی سیکریٹری، ایڈیشنل سیکریٹری، جوائنٹ سیکریٹری اور ان سب کا دفتر اور عملہ ہوتا ہے ، پوری پارلیمنٹ، حکومت اور اشرافیہ کو مفت رہایش، مفت بجلی، مفت پیٹرول، مفت ٹیلیفون، مفت سفر، مفت علاج ،حتی کہ بہت سوں کو مفت تعلیم بھی ملتی ہے۔ یہ چند وزارتیں ضم کرنے یا ختم کرنے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ مراعات یافتہ اور عام آدمی کا مسئلہ ہے۔ وزیر خزانہ نے بڑے فخر سے بتایا ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں فائلرز کی تعداد دگنی ہوکر 32 لاکھ ہوگئی ہے۔ لیکن اس سے ٹیکس کے حجم میں مطلوبہ اضافہ تو نہیں ہورہا یہ نان فائلرز تو پابندیوں اور مجبوریوں کی وجہ سے فائلر بن رہے ہیں، ذرا ان کے اعدادوشمار تو نکالیں کہ اس اضافے والوں نے کتنا اضافی ٹیکس دیا ہے بیش تر تو پابندیوں سے بچنے کیلیے فائلرز بنے ہیں ظاہر ہے جب نان فائلرز گاڑیاں اور جائیداد نہیں خرید سکیں گے۔ جو کاروبار کیلیے نہیں بلکہ عام گھریلو معاملات کیلیے خاندانی جائداد کی فروخت نہیں کرسکیں گے تو وہ فائلرز تو بن جائیں گے ، لیکن دیکھنا ہے کہ ٹیکس کتنا دیں گے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف دن رات پاکستان کی ترقی کیلیے کام کررہے ہیں اور حکومتی پالیسوں کے نتیجے میں مہنگائی کم ہوکر سنگل ڈیجیٹ میں آگئی ہے۔ اب سنگل ڈیجٹ مہنگائی میں کم سے کم تنخواہ والے عام آدمی کا بجٹ بھی وزیر خزانہ صاحب بنا دیں تو اچھا ہوگا۔اور حکومت پنجاب بھی تو وزیر اعظم ہی کی بھتیجی کی ہے جس نے لیگی پارلیمانی سیکرٹریز کے لیے کروڑوں روپے کی لاگت سے لگژری گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے پارلیمانی سیکرٹریز اور افسران کے لیے 61 کروڑ 24 لاکھ 75 ہزار روپے کی لاگت سے 76 لگژری گاڑیاں خریدی جائیں گی۔پارلیمانی سیکرٹریز کے لیے 22 کروڑ روپے کی لاگت سے 29 لگژری گاڑیاں، اور ایس اینڈ جی اے ڈی کے لیے 9 کروڑ 96 لاکھ سے 15 گاڑیاں خریدی جائیں گی۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب نے 76 لگژری گاڑیاں خریدنے کی درخواست کی تھی، ایس اینڈ جی اے ڈی نے پروٹوکول کے لیے 3 کروڑ 61لاکھ روپے کی لاگت سے 2 لگژری گاڑیاں بھی خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی وزرا کے پروٹوکول کے لیے 20 کروڑ 90 لاکھ روپے کی لاگت سے 30 لگژری گاڑیاں بھی خریدی جائیں گی۔اس کس حساب کریں تو یہ ڈاکا بھی اربوں روپئے کا ہے۔ حکمران طبقہ اپنے تعیشات اور فضول خرچیوں کر حق سمجھتا ہے اور غریب اور تنخواہ دار پر ٹیکس لادتا جارہا ہے۔ اپنے تعیشات کم کریں فضول خرچیاں کم کریں اور عوام کو حقیقی ریلیف دیں۔