ریاستی دہشت گردی کا جواب، ریاستی جہاد

299

حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو شہید کرنے کے بعد سے اب تک ایران سمیت کسی اسلامی ملک نے کوئی ٹھوس جوابی کارروائی نہیں کی ہے جس کے نتیجے میں اسرائیل کی ہمت مزید بڑھی ہے اوراسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے دھمکی دی ہے کہ مشن ابھی مکمل نہیں ہوا، آنے والے دنوں میں مزید کچھ ہوگا۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نے ہمیں آسانی سے شکار ہوجانے والی مچھلی کہا لیکن ہم نے خود کو فولاد کا تار ثابت کیا،خطے میں طاقت کے توازن کے لیے حسن نصر اللہ کو مارنا ضروری تھا، اسرائیل کے لیے خطرہ بننے والے باب کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا ہے، نیتن یاہو نے ایران کو دھمکی دیتے ہوئے فرعونیت کے ساتھ کہا کہ ایران یا مشرق وسطیٰ میں کوئی بھی اسرائیل کے لمبے ہاتھوں کی پہنچ سے دور نہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہمیں آنے والے دنوں میں اہم چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا، ساری دہشت گردی کا جواز پیش کرنے کے لیے کہا کہ حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کو جب نظر آئے گا کہ اب حزب اللہ اسے بچانے نہیں آرہی تو ہمارے یرغمالیوں کی واپسی کے امکانات اتنے ہی زیادہ روشن ہوں گے۔علاوہ ازیں اسرائیلی فوج نے بھی دھمکی دی کہ ہم حزب اللہ کے نئے سربراہ کو بھی نشانہ بنائیں گے، اسرائیل اتنی دیدہ دلیری اس لیے دکھا رہا ہے کہ اس کے خلاف جہاد پرائیویٹ سیکٹر میں ہورہا ہے کوئی ریاست نہیں لڑرہی،اسے نان اسٹیٹ ایکٹر کہا جاتا ہے جبکہ اسرائیل اسٹیٹ ٹیررزم کررہا ہے اس کا جواب اسٹیٹ ایکشن ہی ہے اقوام متحدہ نہیں، لیکن اسرائیل سے بار بار بدلہ لینے کا اعلان کرنے والے ایران نے لبنان اور پورے خطے میں اسرائیلی اقدامات پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا۔ کیا ایران کو یقین ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اسرائیل کو روک سکتی ہے ،یقینا ایسا نہیں ہے بلکہ وہ تو اسرائیل کو مزید انسانیت سوزی کا موقع دے گی۔اقوام متحدہ میں ایرانی مندوب نے سلامتی کونسل کے پندرہ اراکین کوخبر دار کیا کہ ایران کی سفارتی حدود اور نمائندوں کے خلاف کسی قسم کے حملے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ہم بین الاقوامی قوانین کے تحت اپنے قومی اور سیکیورٹی مفادات کے تحفظ کے لیے اپنا حق استعمال کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔سوال یہ ہے کہ برداشت نہیں کرنے کی بات تو کئی بار گزر گئی ایران، لبنان اور فلسطین برداشت نہیں کررہے تو اور کیا کررہے ہیں۔اسرائیلی حملوں پر ایران اور لبنان کے موقف نہایت پھس پھسے ہیں اور جو بھی لولی لنگڑی جنگ ہے یہ پرائیویٹ طور پر لڑی جارہی ہے ،اسرائیل کو صرف ریاستیں روک سکتی ہیں اور ریاستیں براہ راست یا بالواسطہ اسرائیل کی باجگزار ہوچکی ہیں، ان پرائیویٹ یا کچھ طاقتوں کے تعاون سے لڑنے والوں میں یمن کے حوثی ہیں، لبنان کے حزب اللہ والے اور القسام ہیں،اور حماس ہیں، الفتح یا پی ایل او کسی اتھارٹی کے بغیر قائم فلسطینی اتھارٹی کو بچانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ باقی رہے ستاون اسلامی ممالک کے حکمران یہ سب ایک سے بڑھ کر ایک ڈرپوک لوگ ہیں۔ ان سے کسی جرات مندانہ قدم کی توقع نہیں کی جاسکتی۔یمن کے حوثیوں کے میزائل، حماس کے راکٹ اور حزب اللہ کے راکٹ اسرائیل کو خوفزدہ بھی نہیں کرسکتے، یہ جتنے میزائل مارلیں اب دوسرا سات اکتوبر شاید ہی ہو سکے، اصل کام اسلامی ریاستوں کا ہے ان کے حکمران اور جرنیل اپنے لوگوں کو فتح کرنے کے بجائے ساری مردانگی اسرائیل کے مقابلے میں دکھائیں۔ ان سب سے زیادہ باہمت اور سیدھا موقف فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کا ہے اس کے ترجمان خالد قدومی کا کہنا ہے کہ غزہ میں ہماری تحریک ثابت قدم ہے۔ ہمارا دشمن سفارتکاری کو نہیں مانتا، ہم اس وقت حالت جنگ میں ہیں۔ہم صبر کرتے رہے اور اسرائیل کو جواب نہ دیا تو اس کی جرأت اور بڑھے گی۔ امریکا اسرائیل کے ساتھ مل کر خطے کی ری انجینئرنگ میں مصروف ہے، اسرائیل کو جواب دینا ہمارا فرض ہے، فلسطین کی آزادی تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔