دو ریاستی حل امت کے موقف سے انحراف

260

ہر کچھ عرصے بعد جب اسرائیل کے فلسطینیوں پر مظالم بہت زیادہ بڑھ جاتے تو کوئی نہ کوئی مسلمان حکمران ،خصوصا پاکستانی حکمران فلسطین کے دو ریاستی حل کا شوشاچھوڑ دیتا ہے۔ یہ دراصل فلسطین کاز سے غداری ہے۔ اقوام متحدہ میں اچھی تقریر کرکے کچھ جذباتی جملے بول کر میاں شہباز شریف بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ وہ اچھی تقریر کرنے والے ،بھٹو،جنرل ضیا ، بے نظیر اور عمران خان کی صف میں شامل ہوگئے ہیں۔ تقریر جیسی بھی تھی موقف امریکا اور اسرائیل کی مرضی کا تھا، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے جنرل پرویز بھارت سے خوفزدہ تھے تو کشمیر پر تھرڈ آپشن اور مشترکہ حل کی باتیں کررہے تھے ، اسی طرح دو ریاستی حل کی بات بھی کی گئی تھی اور ایک مرتبہ پھر میاں شہباز شریف نے دو ریاستی حل کی بات کرکے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اشارہ دیا ہے ، امت مسلمہ کا متفقہ اور مشترکہ موقف تو یہ ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے خود بانی پاکستان قائد اعظم نے اسے ناجائز قرار دیا تھا،وہ کیسے ریاست ہوسکتی ہے ،پھر فلسطینیوں نے دو ریاستوں کیلیے تو لاکھوں جانیں قربان نہیں کی تھیں، آخر دو ریاستوں کا شوشا چھوڑ کر کس کو خوش کیا جاتا ہے ،سو اس کی گرفت امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کی ہے اور دو ٹوک الفاط میں کہا ہے کہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی بات کرنا امریکا و اسرائیل کو خوش کرنا ہے، اسرائیل امریکی پشت پناہی سے دہشت گرد ریاست بن کر دندناتا پھر رہا ہے اس کی دہشت گردی اور جارحیت کو نہ روکا گیا تو امریکا واسرائیل کی خوشنودی کرنے والے بھی کل بچ نہیں سکیں گے، اسرائیل کے خلاف پوری امت کے عوام میں کوئی ابہام نہیں وقت کا تقاضہ ہے کہ عالم اسلام کے حکمران اور افواج مشترکہ طور پر اور موثر طریقے سے اسرائیل کے خلاف عملی اقدام اور پیش قدمی کریں،اس موقف کو تمام محب وطن جماعتیں تسلیم کرتی ہیں اور انصاف کا بھی یہی تقاضا ہے کہ قابض کو قابض اور ناجائز کہا جائے۔ حیرت ہے پاکستانی حکمران کس طرح اتنی جرات کرلیتے ہیں کہ امت کے متفقہ موقف کے خلاف بات کرلیں۔اسرائیل کے خلاف امت کے موقف کو اجاگر کرنے کیلیے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے یکم سے 7 اکتوبر تک ‘ہفتہ یکجہتی فلسطین ولبنان’ منانے کا اعلان کیا ہے۔حافظ نعیم الرحمن نے حکومت پاکستان سے بھی مطالبہ کیا کہ 7اکتوبر کو سرکاری سطح پر احتجاج کا اعلان کرے تاکہ پورے ملک سے اسرائیل کی جارحیت و دہشت گردی کے خلاف واضح اور موثر پیغام پوری دنیا میں جائے،اگر حکومت یہ اعلان کرے گی تو یہ قوم کا متفقہ موقف بن کر سامنے آئے گا کیونکہ قبلہ اول کی آزادی پوری امت کا معاملہ ہے، یہ کسی پارٹی کا مسئلہ نہیں پوری امت کا مسئلہ ہے، وزیر اعظم نے دوریاستی حل پیش کرکے اس متفقہ موقف سے انحراف کیا ہے۔