ملازمین کے لیے کام کے اوقات

167

ایک ہفتے میں ایک انسان کو کتنے گھنٹے کام کرنا چاہیے؟ یہ ایسا سوال ہے جس کے بارے میں گزشتہ سال ہمارے پڑوسی ملک میں بحث جاری رہی تھی۔ جس پر بی بی سی نے مکمل تفصیل سے روشنی بھی ڈالی تھی۔ جس میں کچھ نے کمپنیوں میں ملازمین کی ابتدائی تنخواہ کی طرف توجہ دلائی جو کہ کافی کم ہوتی ہے۔ کئی نے اس پر بات کی کہ وقفے کے بغیر کام کرنا جسمانی اور ذہنی تندرستی کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ایک ڈاکٹر نے لکھا کہ ’لوگوں کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے کے لیے وقت نہیں، گھر والوں سے بات چیت کے لیے وقت نہیں، ورزش کے لیے وقت نہیں، تفریح کے لیے وقت نہیں۔ اس کے علاوہ لوگ یہ توقع کرتے ہیں کہ کام کے اوقات کے بعد بھی آپ ان کی ای میلز اور کالوں کا جواب دیں۔ پھر آپ سوچتے ہیں کہ نوجوانوں کو دل کو دورے کیوں پڑ رہے ہیں؟ جب یہ بحث جاری تھی تب کچھ ترقی پذیر ممالک میں چار دن کام کرنے پر تجربے ہو رہے تھے۔ 2022 میں بیلجئم نے ملازمین کی تنخواہ میں کمی کیے بغیر انہیں ہفتے میں چار دن کام کرنے کا حق دینے کے لیے قوانین میں تبدیلی کی۔ ملک کے وزیر اعظم نے کہا کہ ایسا کرنے کے پیچھے وجہ ملک کو زیادہ متحرک اور پیداواری معیشت بناناہے۔ پچھلے سال برطانیہ میں کئی کمپنیوں نے 6 ماہ کی آزمائشی اسکیم میں حصہ لیا۔ اس کا اہتمام ’4 ڈے گلوبل‘ کے ذریعے کیا گیا تھا، یہ ایک تنظیم ہے جو کہ ایک چھوٹے ہفتے کے لیے مہم چلاتی ہے۔ آزمائشی وقت کے اختتام پر اس میں حصہ لینے والی 61 کمپنیوں میں سے 56 نے کہا کہ وہ کم از کم ابھی کے لیے چار دن کے ہفتے کے ساتھ کام جاری رکھیں گے جبکہ 18 کا کہنا ہے کہ وہ یہ مستقل تبدیلی کر رہے ہیں۔ برطانیہ میں اس اسکیم کے اثر کا جائزہ لینے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس کے ’وسیع فوائد‘ ہیں۔ خاص طور پر ملازمین کی بہتری کے لیے کسی کاخیال ہے کہ اس رپورٹ سے رویوں میں تبدیلی آ سکتی ہے تاکہ ہفتے کے وسط کا وقفہ یا تین دن کی چھٹیوں کو جلد ہی معمول کے مطابق دیکھا جائے۔ اسی طرح کا تجربہ اب پرتگال میں کیا جا رہا ہے۔

بہرحال ہمارے پیارے وطن پاکستان میں تین قوانین ایسے ہیں جو اوقات کار، تعطیلات اور آرام کے وقفوں کا تعین کرتے ہیں۔ فیکٹریز ایکٹ 1934کا اطلاق بنیادی طور پرکسی بھی مینوفیکچرنگ پروسیس/ مصنوعات بنانے کے عمل پر ہوتا ہے۔ اور یہ قانون کسی بھی اس فیکٹری پر لاگو ہوتا ہے جس میں دس یا دس سے زیادہ افراد کام کر رہے ہوں یا پچھلے بارہ ماہ میں کسی بھی دن کام کر رہے تھے۔ اسٹینڈنگ آرڈرز کا اطلاق کسی بھی ایسے صنعتی یا تجارتی ادارے پر ہوتا ہے جہاں بیس یا اس سے زیادہ افراد ملازم ہوں یا پچھلے 12 ماہ میں کسی بھی دن ملازم تھے۔ قانو ن کے مطابق آپ کے معمول کے روزانہ کے اوقات کار 8گھنٹے ہیں جبکہ ایک ہفتے میں یہ 48 گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں۔ تاہم اوورٹائم کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ سے ایک ہفتے میں 60گھنٹے تک کام کا کہا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں روزانہ کے اوقات کار کا پھیلائو 12 گھنٹے ہو گا۔
معمول کے اوقات کا ر…ایک دن میں آٹھ گھنٹے
لنچ اور نماز کے لیے… ایک دن میں ایک گھنٹہ
آرام کا وقفہ… ایک دن میں ایک گھنٹہ
اوورٹائم …ایک دن میں دو گھنٹے

اگر آپ کا آجر آپ سے اوورٹائم کروانا چاہ رہا ہے تو آپ کو ایک گھنٹہ آرام کا وقفہ دیا جانا چاہئے۔ آپ کو ایک دن میں 2گھنٹے سے زیادہ اوورٹائم کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا اور ایک سال میں آپ کے اوورٹائم کے اوقات 624 گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ لنچ ٹائم اور آرام کا وقفہ ان پیڈ یعنی غیر ادا کردہ اوقات ہیں اور آپ کو ان 2 گھنٹوں کے عوض کوئی معاوضہ ادا نہ کیا جائے گا۔ آپ کے آجر کے لیے ضروری ہے کہ وہ 6گھنٹے کام کے بعد ایک گھنٹہ آپ کو آرام کا وقفہ دے۔ اگر آپ ایک خاتون ہیں تو آپ رات کو 10بجے تک یعنی 2 شفٹوں میں کام کر سکتی ہیں۔ لیکن یہ اسی صورت میں ہے اگر آپ کا آجر آپ کے لیے پک اینڈ ڈراپ کا انتظام کرے۔ اگر آجر ٹرانسپورٹ کا انتظام نہیں کرتا تو آپ کے اوقات کار صبح 6سے شام 7بجے کے دوران ہونے چاہئیں۔