وزیر اعظم کا اقوام متحدہ میں خطاب

308

وزیر اعظم شہباز شریف کا اقوام متحدہ میں خطاب عالمی سیاست کے تناظر میں اہم تھا، جہاں انہوں نے دنیا کو درپیش چیلنجز اور نئے ورلڈ آرڈر کی ضرورت پر بات کی ہے ان کا خطاب ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب دنیا کو فلسطین، کشمیر، یوکرین، اور افریقا میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور تنازعات کا سامنا ہے۔ ان چیلنجز کے ساتھ عالمی طاقتوں کا توازن بھی تیزی سے بدل رہا ہے، اور وزیر اعظم کے مطابق، ہمیں ایک نئے ورلڈ آرڈر کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ نیا ورلڈ آرڈر دراصل طاقت کے نئے مراکز اور عالمی پالیسیوں میں تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے، جہاں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی برتری کمزور پڑ رہی ہے اور نئی عالمی طاقتیں جیسے چین، روس، اور مشرق وسطیٰ کے ممالک ابھر رہے ہیں۔ یہ نظام صرف معاشی یا فوجی طاقت کا نہیں، بلکہ ٹیکنالوجی، معلومات، اور سافٹ پاور کا بھی ہے۔ وزیراعظم نے اس بات کو واضح کیا کہ موجودہ عالمی نظام فلسطینی عوام پر ظلم و ستم روکنے میں ناکام رہا ہے اور اس لیے ایک نئے عالمی نظام کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو انصاف، مساوات، اور عالمی امن کو یقینی بنائے۔ فلسطین کا مسئلہ اس عالمی تناظر میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے، جہاں اسرائیل کی جانب سے جاری جارحیت، دہشت گردی اور نسل کشی کے واقعات نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ لیکن فلسطینی عوام کی جرأت، قربانیاں اور ان کا جذبہ ایمانی ایک بار پھر دنیا کے سامنے یہ حقیقت رکھتا ہے کہ ایمان اور عزم طاقت سے زیادہ اہم ہیں۔ فلسطینیوں نے جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس اسرائیلی فوج کو جس طرح مزاحمت کا سامنا دیا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جذبہ ایمانی کے سامنے دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی جھکنے پر مجبور ہو سکتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ فلسطینیوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ ان کی مزاحمت ایک دن رنگ لائے گی اور مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدل جائے گا۔ اسرائیل، جسے قائد اعظم نے ایک ناجائز ریاست قرار دیا تھا، ایک دن صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ پاکستان کی فلسطین کے لیے حمایت اس موقف پر اصولی اور تاریخی ہے کہ کوئی دو ریاستی حل فلسطین کے مسئلے کا نہیں ہے، بلکہ ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست ہی مسئلے کا حقیقی حل ہے اس میں وزیراعظم یا کسی اور کو اپنے پالیسی بیان دو ریاستی حل کی کرنی ہی نہیں چاہیے۔ اسرائیل کو فلسطین میں غیر قانونی طور پر مسلط کرنے والی مغربی طاقتیں، خاص طور پر امریکا، برطانیہ اور فرانس، اسرائیلی جرائم میں برابر کی شریک ہیں۔ قائداعظم کی فلسطین سے متعلق پالیسی ہی ہماری راہنمائی کرتی ہے۔ ان مغربی ممالک نے ایشیا اور افریقا میں جدید نوآبادیاتی نظام کو قائم رکھنے کے لیے اسرائیل کو زبردستی فلسطین کی سرزمین پر ایک غیر قانونی ریاست کے طور پر مسلط کیا۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی صف نہ کھڑا کریں۔ اس وقت یہ صورت حال یہ ہے کہ دنیا میں دہشت گردی کی اصل جڑیں امریکا، اسرائیل اور بھارت جیسے ممالک میں موجود ہیں، جو خود کو عالمی برتری کا حق دار سمجھتے ہیں اور دوسرے ممالک پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں اس دوغلے نظام پر شدید تنقید کی جو خوش آئند ہے انہوں نے عالمی برادری کو اس ظلم و درندگی کے خلاف کھڑا ہونے کی اپیل کی ہے۔ لیکن یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا اقوام متحدہ اور عالمی برادری واقعی ان مسائل کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہے؟ یا یہ ادارہ محض باتوں تک محدود رہ گیا ہے؟ وزیر اعظم شہباز شریف نے درست کہا کہ اقوام متحدہ کو صرف باتیں نہیں کرنی چاہئیں، بلکہ عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ خود پاکستان بھی اس مسئلے پر زبانی کلامی بیانات کے بجائے عملی اقدامات اٹھائے، کیونکہ باتیں کرنا آسان ہے، مگر عملی طور پر انصاف کے لیے کھڑا ہونا مشکل ہے۔

وزیر اعظم کے خطاب میں مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا، جہاں بھارت کی جانب سے جاری مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ایک کھلی حقیقت ہیں۔ کشمیر کے مسئلے پر بھی عالمی برادری کی خاموشی افسوسناک ہے، لیکن جیسا کہ فلسطین کے معاملے میں دکھائی دیتا ہے، کشمیر میں بھی بھارت کے ناپاک عزائم ناکام ہوں گے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف کا اقوام متحدہ میں خطاب عالمی مسائل اور بدلتی ہوئی سیاست کے تناظر میں اہمیت کا حامل تھا۔ انہوں نے واضح طور پر ان چیلنجز کا ذکر کیا جو آج دنیا کے سامنے ہیں۔ نئے ورلڈ آرڈر کا تصور صرف طاقت کی تبدیلی نہیں، بلکہ ایک ایسے نظام کی تشکیل ہے جو تمام قوموں کو انصاف اور مساوات فراہم کرے۔ فلسطینی عوام کی جدوجہد اور دنیا بھر کے مظلوموں کی قربانیاں اس نئے نظام کی بنیاد بن سکتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ جہاں عالمی ضمیر بیدار ہو وہاں ظلم و جبر کے خلاف ہرہر سطح پر مزاحمت کی بھی ضرورت ہے۔