ہمارا خاندانی نظام کیوں تباہ ہو رہا ہے

544

خاندانی نظام ہمیشہ سے معاشرتی زندگی کا ایک اہم ستون رہا ہے، جس کی بدولت افراد میں محبت، احترام، اور تعاون کی فضا قائم رہتی تھی، مشترکہ خاندانی نظام میں بزرگوں کو دی جانے والی عزت اور احترام خاندان کی محبت، اتحاد، اور استحکام کا باعث بنتی تھی۔ ان کا تجربہ، دعائیں، اور مشورے خاندان کے افراد کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے تھے، اور ان کی قدر و قیمت کو معاشرتی اور اخلاقی لحاظ سے بہت بلند مقام حاصل تھا، وہ خاندان کے رسم و رواج، ثقافت، اور مذہبی تعلیمات کو اگلی نسل تک منتقل کرنے کا ذریعہ ہوتے تھے، انہیں نہایت قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا، لیکن آج کے دور میں، خصوصاً ہمارے معاشرے میں بھی والدین اور بزرگ بوجھ محسوس کیے جا رہے ہیں، کیوں کہ ہمارا سارا معاشرہ مغربی تہذیب کا اثر قبول کر چکا ہے، وہی مغربی تہذیب جو کبھی ہمارے خاندانی نظام کو حسرت سے دیکھتی تھی، مگر آج ہم اْسی تہذیب کی انفرادی طرز زندگی اور خود مختاری کو زیادہ اہمیت دینے لگے ہیں، جہاں لوگ اپنی آزادی اور خواہشات کو ترجیح دیتے ہیں، جس سے خاندانی نظام کی مشترکہ زندگی ختم ہو گئی ہے، اس سے ہمارا معیارِ زندگی تو کیا بلند ہوتا ہم اخلاقی پستی میں چلے گئے، اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ بدل کر رہ گیا، میں میری بیوی میرے بچے اور بس، مشترکہ خاندانی نظام تو کیا ہی بچتا، گھر کے آنگن بزرگوں کے سائے سے محروم ہو گئے اور ’’اولڈ ایج ہومز‘‘ آباد ہوگئے، اور جو بزرگ گھروں میں موجود ہیں وہ کسی کونے میں سامان کی طرح پڑے نظر آتے ہیں، اور اس فارمولے پر زندگی بسر کررہے ہیں کہ بزرگ وہی اچھا جو منہ بند رکھے، گھر کے باقی لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں اور جو وقت بچتا ہے اس میں موبائل کی دنیا آباد کیے ہوئے ہیں، ان کے پاس اتنی بھی اخلاقی قدر نہیں رہی کہ ان خون کے رشتوں سے یہ پوچھ لیں کہ آپ کی طبیعت کیسی ہے یہ ہے آج ہمارے معاشرے کا حال، اس نظام کی تباہی سے نہ صرف معاشرتی بلکہ اخلاقی اور روحانی لحاظ سے بھی نقصانات کا باعث بن رہا ہے، خاندانی نظام کے خاتمے کے بعد سب سے زیادہ نقصان بزرگوں کو ہوا ہے۔ وہ جو کبھی پورے خاندان کا مرکز ہوتے تھے، اب تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں۔

ان کی زندگی کے آخری ایام جو آرام اور سکون کے ہونے چاہیے تھے، وہ اب تنہائی اور بے بسی میں گزرتے ہیں۔ انہیں لاوارث چھوڑ دیا جاتا ہے اور اکثر اوقات انہیں اولڈ ایج ہومز میں بھجوا دیا جاتا ہے، جہاں وہ اپنی باقی زندگی تنہائی اور غم کے ساتھ گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں، خاندانی نظام کی تباہی کے نتیجے میں نوجوان نسل اور والدین دونوں نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں، نوجوان نسل اپنے روزگار اور مالی مشکلات کی وجہ سے والدین اور خاندان کی ذمہ داریوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور اپنے والدین کو بوجھ سمجھنے لگتے ہیں، ان میں اکثر ڈپریشن، انگزائٹی اور دیگر ذہنی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں، دوسری جانب، والدین بھی اپنی اولاد کی طرف سے توجہ نہ ملنے کے باعث نفسیاتی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں، اور اپنے آپ کو اولاد پر بوجھ سمجھنے لگتے ہیں، نوجوان نسل اپنی زندگی کی ترجیحات میں والدین اور خاندان کو کم اہمیت دیتے ہیں، ان کے لیے اپنے خوابوں اور خواہشات کی تکمیل اہم ہوتی ہے، اور اس میں وہ والدین کی دیکھ بھال کو ایک رکاوٹ کے طور پر دیکھتے ہیں، اس میں کچھ والدین کی بھی کوتاہیاں ہیں، جنہوں نے اپنی اولاد کی تربیت میں دین اور اخلاقی اقدار کو نظرانداز کر دیا ہے، ایک خود رو پودے کی طرح جوان ہونے والا بچہ ان احساسات سے عاری ہوتا ہے کہ والدین کا کیا مقام ہے، جس کے نتیجہ میں اولڈ ہومز کے قیام اور ان میں رہنے والوں کی تعداد میں روز اضافہ ہو رہا ہے۔

میں آج کی نسل کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ دنیا میں بس دو طرح کے لوگ ہیں، ایک وہ جن کے سروں پہ والدین کے سائے موجود ہیں، دوسرے وہ جو اس جنت سے محروم ہیں اور میرے مخاطب وہ لوگ ہیں جن کے والدین حیات ہیں، یاد رکھیں بوڑھے والدین خوش نصیب لوگوں کو ملتے ہیں، تاکہ اْن کی خدمت سے ربّ کو راضی کرسکیں، یہ حقیقت ہے کہ والدین کے ہاتھ جو بظاہر کمزور اور ناتواں سہی، مگر جب بارگاہ ربّ العزت میں اْٹھتے ہیں تو عرش کو ہلا دیتے ہیں، ابھی وقت ہے ان کی قدر کریں ان کے ہاتھوں کو بارگاہ ربّ العزت میں اْٹھوا کر اپنی مرضی کی دعا ئیں قبول کرائیں اور دنیا و آخرت بنائیں، یاد رکھیں والدین ہماری زندگیوں میں اس پھول کی طرح ہوتے ہیں جس کی خوشبو تربیت کا لبادہ اوڑھ کر ہمارے کردار کو ہمیشہ مہکاتی رہتی ہے، اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں کیا ہم اس رشتے سے انصاف کر رہے ہیں، نوجوان نسل کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ والدین کی خدمت دنیا اور آخرت کی کامیابی اور اپنے ربّ کو راضی کرنے کا ذریعہ ہے، جس طرح انہوں نے اپنی زندگی کے بہترین سال ہمیں پالنے اور سنوارنے میں گزارے، اسی طرح ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے بڑھاپے میں ان کی خدمت کریں اور ان کا سہارا بنیں، بڑھاپے میں والدین جسمانی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں، انہیں ہماری محبت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس وقت اگر ہم ان کا ساتھ دیں، تو یہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ ہمارے لیے بھی اطمینان اور سکون کا باعث ہوگا، ہمارے دین اسلام میں والدین کی خدمت کو بیحد اہمیت دی گئی ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’تمہارے والدین تمہارے جنت کے دروازے ہیں‘‘ یہ حدیث ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ والدین کی خدمت سے ہمیں جنت کی خوشخبری ملتی ہے۔ ان کی نافرمانی اور ان کو بوجھ سمجھنا دین اور دنیا دونوں کا نقصان ہے، اس دعا کے ساتھ کہ پاک پروردگار ہمیں اپنے والدین سے حسن سلوک اور ان کی خدمت کی توفیق عطا فرما، جب یہ دنیا سے رخصت ہوں تو ہم سے راضی ہوں، کیونکہ والدین کی رضا اللہ کی رضا ہے، لہٰذا جس کے پاس والدین یا دونوں میں سے ایک بھی ہو، اپنی آخرت سنوار لیں، ان کو وقت دیں ان کی بات سنیں ان کا احترام کریں اور اپنے ربّ کو راضی کریں۔