کیا بلوچستان پاکستان سے الگ ہورہا ہے (آخری حصہ)

463

پاکستانی فوج، پولیس اور شہریوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ دہشت گروہوں نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر کام کرنے والے چینی انجینئروں، کاریگروں اور پروجیکٹس کو بھی متواتر نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ بلوچستان میں چین کے زیر انتظام کئی بڑے منصوبوں پرکام جاری ہے۔ پختون خوا میں داسو ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم کی تعمیر کے مقام پر پچھلے مہینے اگست کے اواخر میں پانچ چینی انجینئرز اور ان کا پاکستانی ڈرائیور ایک خودکش بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے جس میں ان کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایک ہفتے کے اندر پاکستان میں چینی مفادات کو نشانہ بنانے والا یہ تیسرا حملہ تھا۔ اس سے پہلے دو دھماکوں میں بلوچستان میں ایک ائر بیس اوراسٹرٹیجک بندرگاہ کو نشانہ بنایا گیا تھا جہاں چین انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں پر اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری کررہا ہے۔
مجید بریگیڈ بلوچستان لبریشن آرمی کا حصہ ہے جو خودکش حملے کرتا ہے۔ اس کے نمایاں حملوں میں ایک خودکش دھماکہ وہ تھا جو اپریل 2022 میں کراچی یو نیورسٹی میں ایک چینی انسٹی ٹیوٹ پر کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے اگست 2018 میں چینی انجینئرز کا قتل، نومبر 2018 میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ، مئی 2019 میں گوادر میں اس لگژری ہوٹل پر حملہ جہاں چینی عموماً ٹھیرتے ہیںجہاں چین کی جانب سے تعمیر کردہ مشہور بندرگاہ واقع ہے، سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
علٰیحدگی پسند گروہ بلوچستان میں چینی مفادات اور چینی کارکنوں کو نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ 13 اگست، 2024ء کو انہوں نے چینی انجینئرز کو گوادر پورٹ لے جانے والے قافلے پر حملہ کیا، جس میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر کام کرنے والے چینی ماہرین تعلیم، جسے چینی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے ستونوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، ہلاک ہو گئے تھے۔ جس پر وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ ’’عسکریت پسند اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان خلیج پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان حملوں کا مقصد پاک چین اقتصادی راہداری کو نقصان پہنچانا ہے‘‘۔
چین کے مفادات اور پاکستانی فوجوں پر حملوں کی پشت پر بھارت ہے جسے امریکا کی مکمل حمایت اور تائید حاصل ہے۔ 2018ء میں دی نیوز انٹرنیشنل اخبار نے سیکورٹی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت نے بلوچستان میں بدامنی پیدا کرکے اقتصادی راہداری کو نشانہ بنانے کے لیے 50 ارب روپے یعنی 261 ملین ڈالر سے زائد مختص کیے ہیں (الجزیرہ نیٹ)
پاکستانی سول اور فوجی حکام بارہا واضح کرچکے ہیں کہ بھارت بلوچستان میں چین کی جانب سے شروع کیے گئے 46 ارب ڈالر کے منصوبوں کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے کیونکہ ان منصوبوں کو وہ بھارتی معیشت کے لیے خطرہ باور کرتا ہے۔ پاکستان نے متعدد مرتبہ بھارت پر الزام لگایا ہے کہ وہ بلوچستان لبریشن آرمی اور دیگر علٰیحدگی پسند گروہوں کی حمایت کررہا ہے جوکراچی میں پاکستان اسٹاک ایکس چینج کو نشانہ بنانے میں ملوث رہے تھے۔
گزشتہ سال 09 اپریل 2023ء کو پاکستان نے نام نہاد بلوچستان نیشنل آرمی (جو جنوری 2022 میں قائم ہوئی تھی) کے رہنما اور بانی گلزار امام کو گرفتار کیا، جو بلوچستان اور پنجاب میں درجنوں حملوں کا ذمے دار تھا۔ پاک فوج کی مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی کا کہنا تھا کہ ’’گلزار امام نے بھارت اور افغانستان کا دورہ کیا، اور دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں نے پاکستان اور اس کے قومی مفادات کے خلاف کام کرنے کے لیے اس کو اپنے عزائم کے تحت استعمال کرنے کی کوشش کی تھی‘‘۔ (الجزیرہ)
2014ء سے لے کر آج تک بھارت پر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی میں امریکی ایجنٹوں کی حکومت رہی ہے جو چین کے بارے میں امریکی پالیسی کو نافذ کرتی رہی ہے۔ لہٰذا بھارت نے چین کے خلاف جو کچھ بھی کیا ہے اور کر رہا ہے، وہ بھارتی آلہ کاروں کے ذریعے امریکا کے مفادات کو پورا کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ چند سال پیش تر امریکی کانگریس کی جانب سے بلوچستان کو حق خود ارادیت دینے کی قرارداد منظور کی گئی تھی جس پر پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے امریکا کو کہا تھا کہ وہ ان کے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے انہیں احساس ہے کہ یہ قرارداد امریکی حکومت کی سرکاری پالیسی کی عکاسی نہیں کرتی۔ (بی بی سی، 20/2/2012)
2022ء میں، امریکا نے بلوچستان میں پہلا پولیس انویسٹی گیشن اسکول تعمیر کرنے کے لیے بلوچستان حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس نے امریکا کو خطے میں قانونی انویسٹی گیشن، پولیس انویسٹی گیشن اور امن و امان کو فروغ دینے میں اہم کردار دے دیا ہے۔ یہ بلوچستان کے معاملات میں امریکی مداخلت کا آغاز تھا۔ امریکا بلوچستان میں علٰیحدگی پسند قوم پرست تحریکوں کو چین کے خلاف اپنی پالیسی کے حصے کے طور پر چینی مفادات کو خطرے میں ڈالنے کے لیے استعمال کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ چین کاگھیرائو کر رہا ہے، اور اس کا حلیف بھارت، چین کے خلاف اپنے سرحدی تنازعات کی وجہ سے اور امریکی مفادات کی خدمت کرتے ہوئے، چینی مفادات پر حملہ کرنے کا کام کر رہا ہے۔
امریکا ان تمام اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب نظر آتا ہے۔ پاکستانی فوج اپنے اندرونی علاقوں میں پھنس چکی ہے، بھارت بالخصوص مقبوضہ جموں وکشمیر کے معاملات میں اس کی رسائی اور دلچسپی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ پاکستان بھارت کے خلاف معمول کے رسمی بیانات اور دھمکیاں دینے کے قابل بھی نہیں رہا۔ پاکستانی فوج بلوچستان میں شورش کا مقابلہ کرنے اور علٰیحدگی پسند گروپوں کا پیچھا کرنے میں مصروف ہے۔ خطے میں شورش میں اضافے کی وجہ سے، پاکستانی حکومت نے بلوچ تنظیموں سے لڑنے کے لیے 80 ہزار فوجیوں کو تعینات کیا ہے۔ (الجزیرہ نیٹ، 1/2/2024) اس طرح بھارت پاکستان کی جانب سے محفوظ ہو گیا ہے۔ اب وہ پوری توجہ چین کے محاذ پر دے سکتا ہے جہاں جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں۔ امریکا چاہتا ہے کہ بھارت چینی سرحدی علاقے پر برتر پوزیشن میں آجائے۔
حکومت پاکستان کے ارادوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بلوچستان کی شورش سے سختی اور طاقت سے نمٹنا چاہتی ہے۔ حکومت نے اب تک اس مسئلے کو سیکورٹی کے نقطہ نظر سے ہی دیکھا ہے اور جوابی جنگ اور گرفتاریوں میں حل تلاش کیا ہے جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اپنی برتر حیثیت میں اسلامی اخوت اور اسلامی اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے دیکھ بھال، عدل اور مہربانی سے پیش آئے اور بلوچستان کی زمینوں میں ملکیت عامہ کو بلوچوں سمیت پاکستان کے تمام عوام کے لیے استعمال کرے۔ بلوچوں کو بھی اس عصبیت سے اوپر اٹھنا ہوگا جس سے کچھ حاصل نہیں اور جو سراسر غیراسلامی ہے۔ بلوچستان میں مسلح تنظیموں کو اسلام کے دشمن امریکا اور بھارت کے ساتھ مل کر اپنے ہی ملک کو نقصان پہنچانے سے گریز کرنا چاہیے۔ اسی طرح انہیں ریاست سے علٰیحدگی اور تقسیم کے لیے بھی کام نہیں کرنا چاہیے۔ اسلام اس کے مجرم کو کبیرہ گناہ کا مرتکب قرار دیتا ہے۔ مسلمان ایک امت ہیں۔ ان کی فلاح باہمی اتحاد میں ہے نہ کہ تقسیم اور علٰیحدگی میں۔ حکومت پاکستان امریکی غلامی میں اگر مسئلہ کشمیر سے کنارہ کش ہوتی نظر آرہی ہے تو بلوچ علٰیحدگی پسند بھی کفار اور مشرکین سے مدد کے طالب ہیں یہ سب اسلام میں حرام ہے۔ پاکستان کو اس وقت تک اپنے مسائل سے نجات حاصل نہیں ہوگی جب تک کہ اسلامی شریعت کو نافذ نہ کیا جائے۔ اسلام کے شرعی احکام میں مسائل کا حل تلاش کیا جائے اور خلافت راشدہ کے احیا کو منزل قرار دیا جائے۔ اور حقیقی اسلامی بھائی چارے کے تصور کو عام کیا جائے۔ اسی میں سب کی فلاح ہے۔