افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

386

اونچے طبقوں کی اخلاقی حالت
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اْس وقت مصر کے اونچے طبقوں کی اخلاقی حالت کیا تھی۔ ظاہر ہے کہ عزیز کی بیوی نے جن عورتوں کو بلایا ہوگا وہ امراء و رؤسا اور بڑے عہدے داروں کے گھر کی بیگمات ہی ہوں گی۔ ان عالی مرتبہ خواتین کے سامنے وہ اپنے محبوب نوجوان کو پیش کرتی ہے اور اس کی خوبصورت جوانی دکھا کر انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ ایسے جوانِ رعنا پر میں مر نہ مٹتی تو آخر اور کیا کرتی۔ پھر یہ بڑے گھروں کی بہو بیٹیاں خود بھی اپنے عمل سے گویا اس امر کی تصدیق فرماتی ہیں کہ واقعی ان میں سے ہر ایک ایسے حالات میں وہی کچھ کرتی جو بیگم عزیز نے کیا۔ پھر شریف خواتین کی اس بھر ی مجلس میں معزز میزبان کو علانیہ اپنے اِس عزم کا اظہار کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی کہ اگر اس کا خوبصورت غلام اس کی خواہشِ نفس کا کھلونا بننے پر راضی نہ ہوا تو وہ اسے جیل بھجوا دے گی۔ یہ سب کچھ اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ یورپ اور امریکا اور ان کے مشرقی مقلدین آج عورتوں کی جس آزادی و بے باکی کو بیسویں صدی کا کرشمہ سمجھ رہے ہیں وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے، بہت پرانی چیز ہے۔ دقیانوس سے سیکڑوں برس پہلے مصر میں یہ اسی شان کے ساتھ پائی جاتی تھی جیسی آج اِس ’’روشن زمانے‘‘ میں پائی جا رہی ہے۔
(تفہیم القرآن، سْورَۃ یْوسْف حاشیہ نمبر :27)
٭…٭…٭

احکام اسلامی کے اجراء
حضرت یوسف مامور تو دین اللہ جاری کرنے ہی پر تھے اور یہی ان کا پیغمبرانہ مشن اور ان کی حکومت کا مقصد تھا، مگر ایک ملک کا نظام عملا ایک دن کے اندر نہیں بدل جایا کرتا، آج اگر کوئی بالکیہ ہمارے اختیار میں ہو اور ہم اس میں اسلامی نظام قائم کرنے کی خالص نیت ہی سے اس کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیں، تب بھی اس کے نظام تمدن، نظام معاشی، نظام سیاست اور نظام عدالت و قانون کو بالفعل بدلتے بدلتے برسوں لگ جائیں گے اور کچھ مدت تک ہم کو اپنے انتظام میں بھی سابق قوانین برقرار رکھنے پڑیں گے، کیا تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ خود نبیؐ کو بھی عرب کے نظام زندگی میں پورا اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے نو دس سال لگے تھے؟ اس دوران میں خاتم النبیین کی اپنی حکومت میں چند سال شراب نوشی ہوتی رہی، سود لیا اور دیا جاتا رہا، جاہلیت کا قانون میراث جاری رہا، پرانے قوانین نکاح و طلاق برقرار رہے، بیوع فاسدہ کی بہت سی صورتیں عمل میں آتی رہیں، اور اسلامی قوانین دیوانی فوجداری بھی اول روز ہی بتمام و کمال نافذ نہیں ہوگئے، پس اگر حضرت یوسف کی حکومت میں ابتدائی آٹھ نو سال تک سابق مصری بادشاہت کے کچھ قوانین چلتے رہے ہوں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے اور اس سے یہ دلیل کیسے نکل آتی ہے کہ خدا کا پیغمبر مصر میں خدا کے دین کو نہیں بلکہ بادشاہ کے دین کو جاری کرنے پر مامور تھا۔ رہی یہ بات کہ جب ملک میں دین الملک جاری تھا ہی تو آخر حضرت یوسف کی اپنی ذات کے لیے اس پر عمل کرنا کیوں شایان شان نہ تھا، تو یہ سوال بھی نبیؐ کے طریقے پر غور کرنے سے بآسانی حل ہوجاتا ہے، نبیؐ کی حکومت کے ابتدائی دور میں جب تک قوانین اسلامی جاری نہ ہوئے تھے، لوگ پرانے طریقے کے مطابق شراب پیتے رہے، مگر کیا حضور نے بھی پی؟ لوگ سود لیتے دیتے تھے، مگر کیا آپ نے بھی سودی لین دین کیا؟ لوگ متعہ کرتے رہے اور جمع بین الاختین کرتے رہے، مگر کیا حضور نے بھی ایسا کیا؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ داعی اسلامی کا عملی مجبوریوں کی بنا پر احکام اسلامی کے اجراء میں تدریج سے کام لینا اور چیز ہے اور اس کا خود اس تدریج کے دور میں جاہلیت کے طریقوں پر عمل کرنا اور چیز، تدریج کی رخصتیں دوسروں کے لیے ہیں، داعی کا اپنا یہ کام نہیں ہے کہ خود ان طریقوں میں سے کسی پر عمل کرے جن کے مٹانے پر وہ مامور ہوا ہے۔ ( تفہیم القرآن، سْورَۃْ یْوسْف حاشیہ نمبر :60)