سوال: شریعت میں تعزیت کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ اور کب تک تعزیت کرنا چاہیے؟
جواب: تعزیت عربی زبان کا لفظ ہے، اس سے مراد کسی کے انتقال پر اْس کے رشتے داروں اور پس ماندگان کو حوصلہ دینا، اور اظہارِ ہمدردی کرکے اْن کا غم غلط کرنا اور رنج و تکلیف کو کم کرنا ہے۔ جب کوئی شخص فوت ہوتا ہے تو اْس کے عزیزوں اور بال بچوں کو صدمہ اور غم ہوتا ہے، لہٰذا اْن سے اظہارِ ہمدردی مستحب اور پسندیدہ ہے۔ انھیں تسلی اور تشفی دینا اور صبروشکر کی تلقین کرنا سنتِ نبویؐ ہے۔ تعزیت اور ہمدردی کے موقع پر پس ماندگان سے مل کر دْعا کی تلقین کرنا پسندیدہ ہے:
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ مرنے والے کی مغفرت فرمائے، اْس کی خطائوں سے درگزر کرے۔ اْس کو اپنے دامنِ رحمت میں جگہ دے اور آپ کو اس حادثے پر صبر سے نوازے اور اْس کی موت کا رنج سہنے پر آپ کو اجروثواب عطا فرمائے‘‘۔
رسولؐ اللہ سے اِس موقع پر جو الفاظ منقول ہوئے ہیں، وہ یوں ہیں:اِنَّ لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَلَہ مَا اَعطٰی وَکْلّْ شَیئٍ عِندَہ بِاَجَلٍ مّْسَمًّی، یعنی جو کچھ اللہ تعالیٰ نے لے لیا ہے، وہ بھی اْسی کا ہے اور جو دیا ہے، وہ بھی اْسی کا ہے، اور ایک مقررہ وقت پر ہرشے کو اْسی کی طرف جانا ہے۔ گویا سب کچھ اللہ کا دیا ہے۔ اْس کے ہاں ہرچیز نپی تْلی ہے، یعنی اْس کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیے۔
تعزیت کرنے کا صحیح وقت تو تدفین کے بعد ہی ہے لیکن تدفین سے پہلے تعزیت کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔ میت کے تمام رشتے دار، چھوٹے ہوں یا بڑے، سب سے تعزیت کی جاسکتی ہے۔ تعزیت کے لیے باقاعدگی سے بیٹھ کر انتظار کرنا ضروری نہیں۔ لیکن اگر لوگ اظہارِ ہمدردی کے لیے آرہے ہوں، تو بیٹھنے میں کوئی حرج بھی نہیں۔ تین روز کے بعد تعزیت کے لیے جانا نامناسب ہے کہ اس سے اہلِ خانہ کو تکلیف بھی ہوتی ہے اور موت کا احساس بھی طول پکڑتا ہے، البتہ کوئی شخص اگر سفر وغیرہ سے آئے تو اْس کے لیے تعزیت کی خاطر تین روز بعد جانا بھی جائز ہے۔
میت کے جنازے کے موقع پر یا فوراً بعد میں مویشی ذبح کرنا، یا اس میں سے کھانا تقسیم کرنا، دعوتِ عام کرنا، ناپسندیدہ اعمال ہیں۔ بالخصوص اگر میت کے وارثوں میں ایسے لوگ ہیں جو نابالغ ہوں یا غیرموجود ہوں تو میت کے ترکے میں سے صدقہ و خیرات کرنا یا دعوت کرنا مکروہ ہی نہیں بلکہ قطعاً حرام ہیں کیونکہ پرائے مال کو تقسیم کرنا بلااجازت جائز نہیں ہے۔
پسندیدہ عمل یہ ہے کہ میت کے ورثا اور اہلِ خانہ کے لیے پڑوسی اور دوست احباب کھانے پینے کا اہتمام کریں کیونکہ بسا اوقات رنج و غم کی وجہ سے اہلِ میت خود اپنے کھانے پینے کا انتظام کرنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں۔ حضرت جعفر طیارؓ کی وفات پر رسولؐ اللہ نے مسلمانوں سے بالعموم اور اپنی بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ سے بالخصوص فرمایا تھا کہ جعفر کے گھروالوں کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ اْن پر جو مصیبت آپڑی ہے اْس کے رنج و غم کی وجہ سے وہ کھانا بھولے ہوئے ہیں۔ اس لیے اہلِ بیت کے پڑوسیوں کو چاہیے کہ وہ اْن کو کھانے کے لیے اپنے ساتھ بٹھائیں، اْن کے گھر کھانا بھیجیں اور اس تکلیف کے برداشت کرنے میں اْن کا ہاتھ بٹائیں۔
مسلمان کسی بھی تکلیف کو برداشت کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور غم غلط کرنے اور تکلیف برداشت کرنے میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔ تعزیت کا پْرسا دینا یا اظہار ہمدردی کرنا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے اور اْمت کے جسدِ واحد ہونے کی طرف واضح اشارہ ہے۔ تعزیت کے موقع پر میت کی خوبیوں کا ذکر کرنا بھی اچھا ہے۔ اس کے نقائص سے اعراض کرنا چاہیے اور بہتر ہے کہ ان مواقع کو باہمی تذکیر، وعظ و نصیحت اور دینی رہنمائی کے لیے استعمال کیا جائے۔ فضول گفتگو اور غیبت و چغلی اور یاوہ گوئی سے بالخصوص اس موقع پر اجتناب کیا جائے۔