انسانی خدمت کے عناصر سیرت کی روشنی میں

321

رسول کریمؐ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے سے جہاں انسانی خدمت کے میدان و اطراف کا پتا چلتا ہے، وہاں انسانی خدمت میں کار فرما عوامل اور عناصر ترکیبی کا بھی ادراک ہوتا ہے۔ اگر ان عناصر کو پیش نظر نہ رکھا جائے تو انسانی خدمت کا عمل بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔ وہ عناصر ہیں اکرام، انصاف اور ایثار۔
اکرام کا مطلب ہے کہ انسان کے ہر فرد اور ہر گروہ کو خواہ وہ کسی طبقے، کسی علاقے، کسی رنگ اور کسی نسل اور کسی بھی ذات و برادری سے تعلق رکھتا ہو، محترم سمجھنا اور عزت دینا، اسے کم تر اور حقیر نہ سمجھنا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو محترم بنایا ہے۔ قرآن پاک میںجگہ جگہ اس ہدایت کو دہرایا گیا ہے:
’’اور ہم نے آدم کی اولاد کو محترم بنایا ہے اور خشکی اور دریا میں سواری عطا کی ہے اور ہم نے اس کو پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور جن مخلوقات کو ہم نے پیدا کیا ہے، ان میں سے بیش تر پر اسے فضیلت بخشی ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل: 70)
ایک دوسری جگہ فرمایا گیا :
’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے‘‘۔ (التین: 4)
یہ اکرام و احترام انسانو ں کے کسی مخصوص طبقے کو نہیںبخشا گیا، بلکہ پورے بنی نوع انسان کو عطا کیا گیا ہے۔ اس لیے خدمت انجام دینے والے فرد اور گروہ کو انسانی خدمت سے پہلے انسانوںکی عزت و احترام کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے۔ بہت سے لوگ محتاجوں کی مدد تو کرتے ہیں مگر ان کو حقیر سمجھتے ہیں۔ مال دیتے ہیں مگر دل میں جگہ نہیں دیتے۔
قرآن نے مشرکوں کو اسی انسانی احترام کی تعلیم دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’تم لوگ یتیموں کا احترام نہیں کرتے‘‘۔ یتیم، سماج کی سب سے قابل رحم یونٹ ہے۔ اگر اس کا احترام تمھارے اندر نہیں ہے تو سمجھ لو کہ انسانی خدمت کا جذبہ بھی نہیں ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اسی روح کو شعری پیکر میں اس طرح ڈھالاہے ؎

آدمیت احترام آدمی
باخبر شو از مقام آدمی
(آدمی کے مقام و مرتبہ سے باخبر ہوجائو کہ آدمیت آدمی کے احترام کا نام ہے )۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ خیرات کرتے ہیں، کارخیر میں حصہ لیتے ہیں، ان میں احساس برتری پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ خود کو مختار اور لینے والے کو محتاج سمجھتے ہیں۔ مختار ومحتاج کی یہ نفسیات اکرام کا جذبہ باقی نہیں رہنے دیتی۔ اس لیے نبیؐ نے یہ تعلیم دی کہ تم سب دراصل محتاج ہو اور مختار صرف اللہ ذوالجلال ہے۔ اس لیے اپنی احتیاج آپس کے تعاون سے دور کرو۔ قرآن میں فرمایا گیا:
’’اللہ غنی ہے اور تم سب محتاج ہو‘‘۔ (محمد: 38)
رسول کریمؐ نے مسلمانوں کو یہ تاکید بھی فرمائی کہ صدقہ، زکوٰۃ اور خیرات خاموشی سے محتاجوں کو دیا جائے، اس کی تشہیر نہ کی جائے، بلکہ اس حد تک اخفا کیا جائے کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ اس حکم کی روح بھی دراصل یہ ہے کہ صدقہ قبول کرنے والوں کی عزت نفس محفوظ رہے اور ان کی غیرت کو ٹھیس نہ لگے۔ یہ انسانی اکرام و احترام کا انتہائی اعلیٰ مرتبہ ہے اور خدمت خلق کی روح ہے۔
یہاں خدمت کا ایک دوسرا عنصر آکر مل جاتا ہے اور وہ انصاف ہے، یعنی سماج کے پچھڑے ہوئے، پس ماندہ اور کمزور لوگوں کے ساتھ انصاف کرنا خدمت کا حصہ ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے مال داروں کے مال میں ناداروں کا حق موجود ہے۔ اس لیے حکم ہوا کہ مال دار ناداروں کا حق ادا کریں۔ یہ احسان نہیں انصاف ہوگا، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ان کے مالوں میں مقررہ حق ہے، سائل اور محروم کا‘‘۔ (المعارج: 24-25)

رسول پاکؐ نے اہل ثروت سے فرمایا:
’’تم کو جو رزق دیا جاتا ہے اور اللہ کی طرف سے تمھاری جو مدد کی جاتی ہے، وہ تمھارے کمزور طبقات کی بدولت ہے‘‘۔ (بخاری و ترمذی)
یعنی دولت تمھارا استحقاق نہیں، بلکہ اللہ کا عطا کردہ عطیہ اور امانت ہے۔ کوئی انسان اگر غریب اور محتاج ہے تو یہ اس کا دائمی مقدر نہیں، اسی طرح اگر کوئی انسان مال دار اور مختار ہے تو یہ اس کا پیدایشی حق نہیں۔ رسول پاکؐ نے محتاجوں سے یہ نہیں فرمایا کہ تم مال داروں کے پاس جائو اور ان سے اپنا حق مانگو، بلکہ مال داروں پر یہ ذمے داری عائد کی کہ وہ ناداروں کو ان کا حق پہنچائیں:
’’قرابت داروں، مسکینوں اور مسافر کو اس کا حق ادا کرو، یہ بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں‘‘۔ (الروم: 38)
نادار اگر مال داروں کی خدمت قبول کرتے ہیں تو مال داروں کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے اپنا حق قبول کیا اور مال داروں کا فریضہ ادا ہوا۔ مسجد نبوی میں رمضان المبارک میں اہل خیرحضرات مسلمانوں کو روزہ افطار کی دعوت دیتے ہیں، ان کو اپنے دسترخوان پر لے جاتے ہیں اور ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں، یہ بھی سیرتِ نبویؐ کا فیضان ہے۔
انسانی خدمت کا تیسرا عنصر ایثار ہے، یعنی صرف حق ادا کرنا مطلوب نہیں، بلکہ دوسروں کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دینا، دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف پر مقدم سمجھنا اور اپنے کام کو مؤخر کرکے دوسرے کی حاجت روائی کرنا، انسانی خدمت کا اعلیٰ اور ارفع مقام ہے۔ جس کی تعبیر قرآن کریم نے اس طرح کی ہے:
’’وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود فاقہ سے ہوں، اور جو اپنے نفس کے بخل سے بچا لیا گیا سمجھو کہ وہی کامیاب ہیں‘‘۔ (الحشر: 9)
رسول کریمؐ کی پوری زندگی خدمت خلق کے اسی اعلیٰ مرتبے کی نمایندگی کرتی ہے۔ یہاں تک کہ آپ کے صحابہ کرام میں یہی روح جاری و ساری نظر آتی ہے۔ بعدکی صدیوں میں بھی ہم اس کا اثر مسلم سماج میں محسوس کرتے ہیں۔

سیدنا سہل بن سعدؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک خاتون رسولؐ اللہ کے لیے ایک چادر بْن کر لائیں اور کہنے لگیں کہ یہ چادر میں اپنے ہاتھ سے تیار کرکے آپ کے لیے لائی ہوں۔ رسولؐ نے اس چادر کو قبول فرمالیا اور اس وقت آپؐ کو اس کی ضرورت تھی۔ آپؐ نے اسے اپنا تہبند بنالیا اور ہمارے درمیان تشریف لائے تو ایک شخص نے کہا: کیا خوب چادر ہے مجھے عنایت کردیجیے۔ نبیؐ نے منظور کرلیا۔ تھوڑی دیر آپؐ مجلس میں تشریف فرما رہے پھر واپس ہوئے تو چادر لپیٹ کر اس شخص کو بھجوادیا۔ لوگوں نے اس شخص سے کہا: تو نے اچھا نہیںکیا۔ نبیؐ کو اس کی ضرورت تھی اس لیے اسے پہنے ہوئے تھے۔ تم نے یہ جان کر کہ نبیؐ مانگنے والے کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے، وہ چادر بھی مانگ لی۔ اس شخص نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے پہننے کے لیے یہ چادرنہیں مانگی، بلکہ اسے اپنا کفن بنانے کے لیے مانگی ہے۔ (بخاری)
سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص جناب رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: میں پریشان حال اور بھوکا ہوں۔ یہ سن کر جناب رسالت مآبؐ نے بعض ازواجِ مطہرات کو اطلاع دی کہ اگر کچھ کھانے کو موجود ہو تو بھیجیں۔ جواب ملا کہ گھر میں پانی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ آپؐ نے یکے بعد دیگرے تمام ازواجِ مطہراتؓ کے یہاں معلوم کیا مگر ہر جگہ سے یہی جواب ملا تو آپؐ نے اپنے صحابہؓ سے فرمایا: کوئی ہے جو آج رات اسے اپنا مہمان بنالے؟ ایک انصاری نے کہا کہ میں اسے ساتھ لے جاتا ہوں۔ وہ صحابی اس مہمان کو ساتھ لے کر گھر آئے اور اہلیہ سے کہا کہ کچھ ہے جس سے رسول پاکؐ کے مہمان کی ضیافت کروں۔ اہلیہ نے جواب دیا کہ بچوں کا کھانا ہے، شوہر نے کہا کہ ان کو کسی طرح بہلا کر سلا دینا، اور جب مہمان کھانے بیٹھیں تو چراغ بجھا دینا اور یہ تاثر دینا کے ہم ان کے ساتھ کھارہے ہیں، چنانچہ پروگرام کے مطابق سب کھانے بیٹھے، مہمان نے کھانا کھالیا اور ان دونوں نے بھوکے رہ کر رات گزاری۔ جب صبح رسولؐ اللہ کے پاس گئے تو آپؐ نے فرمایا: ’’تم دونوں میاں بیوی نے رات جو مہمان نوازی کی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کو بھاگئی‘‘۔ (بخاری)
ایثار کی یہ روشن مثال شاید سیرت رسولؐ ہی کے دامن میں مل سکے گی، دنیا کے دوسرے خدمت گاروں کے یہاں اس طرح کی مثالیں مشکل سے مل سکیں گی۔ انسانی خدمت کی یہ اعلیٰ مثال ہے جو ہر عہد اور ہر قوم کے لیے قابل تقلید ہے۔ خدمت خلق کا حقیقی اور کامل تصور اسی وقت ابھرتا ہے، جب کہ اس میں مذکورہ تینوں عناصر موجود ہوں۔