دْعائوں کی صورت میں، عربی زبان میں حضورؐ کے مؤثر نثری نمونے ہیں، جو سچے انسانی تاثرات، پاکیزہ و بلند پایہ قلبی احساسات اور بلیغ ترین اسلوب و طرز ادا پر مشتمل ہیں۔ آپؐ کی حیاتِ مبارک سراپا تقویٰ تھی اور سچے انسانی احساسات سے آراستہ تھی۔ آپؐ عربوں کے فصیح ترین قبیلے قریش میں پیدا ہوئے اور فصیح ترین ہی قبیلے بنوسعد میں آپؐ کی پرورش ہوئی۔ پھر آپؐ نے وحی الٰہی کے سایہ اور الہامِ سماوی کی آغوش میں تربیت پائی۔ پھر خوان قرآنی سے کسبِ فیض فرمایا۔ بھلا آپؐ سے زیادہ پاکیزہ گفتار، شیریں کلام، راست گو اور بلیغ و مؤثر تعبیرات والا کون ہوسکتا تھا؟ اللہ کی طرف سے آپؐ پر بے شمار درود و سلام ہوں۔
رسولؐ سے منقول ادب پارے سب کے سب نثری ہیں، کیونکہ خود آپؐ نے کبھی کوئی شعر نہیں کہا۔ اس کی شہادت خود کتابِ الٰہی د ے رہی ہے:
ہم نے اس [نبیؐ] کو شعر نہیں سکھایا ہے اور نہ شاعری اس کو زیب ہی دیتی ہے۔ یہ تو ایک نصیحت ہے، اور صاف پڑھی جانے والی کتاب‘‘۔ (یٰس: 69)
کلامِ نبویؐ بیک وقت سادہ بھی ہے اور پرکار بھی۔ اس میں بے تکلفی بھی ہے اور شیرینی بھی۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں گویا معانی کی ایک دْنیا آباد ہے۔ محل اگر اختصار کا متقاضی ہے تو کلام مختصر ہے اور اگر ضرورت دراز نفسی کی طالب ہے تو کلام طویل ہے۔ آپؐ کی گفتگو تکلف و تصنع سے پاک اور رواں دواں ہوتی تھی۔ آپؐ نامانوس اور اجنبی کلمات سے دْور اور سوقیانہ، عامی الفاظ سے نفور تھے۔ آپؐ کا کلام، ادب کی مختلف عمدہ اصناف پر مشتمل ہے، مثلاً: تمثیلاتِ فائقہ، اقوالِ حکیمانہ و عالیہ، امثالِ نفیسہ، وصایائے مفیدہ، رْشد و ہدایت، شریعت و تربیت اور مناجات و دْعا وغیرہ۔
پھر ان تمام اصناف میں سب سے زیادہ پْرتاثیر، اپنے ربّ کے حضور آپؐ کی دْعائیں ہیں۔ یہ دْعائیں اس قدر طاقت ور، جامع اور پْراثر ہیں کہ ان سے عربی ادب میں نہ صرف یہ کہ ایک نئی صنف کا آغاز ہوا بلکہ اس نے ادب کی طاقت ور ترین صنف کا درجہ حاصل کرلیا۔ اسلوب کے لحاظ سے یہ دْعائیں متین ہیں اور معنویت سے لبریز بھی۔ نیز دْعا کرنے والے کے اندرونی احساسات، اس کے اْبلتے ہوئے جذبات اور اپنے ربّ کے حضور اس کی لجاجت و انکسار کی بلیغانہ تصویرکشی کرتی ہیں۔
اس کی ایک مثال آپؐ کی وہ دْعا ہے، جو آپؐ نے طائف میں فرمائی تھی۔ جہاں آپ ایک اجنبی اور غریب الوطن کی حیثیت رکھتے تھے اور کسی حامی و مددگار کی تلاش میں تشریف لے گئے تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے، جب آپؐ کے چچا ابوطالب وفات پاچکے تھے، جو قوم کی ایذائوں سے آپؐ کو بچاتے تھے اور آپؐ کی زوجۂ مطہرہ سیدہ خدیجہؓ بھی وفات پاچکی تھیں، جو آپؐ کی معاون و غمگسار تھیں۔ لیکن طائف جو مکہ جیسا ہی شہر تھا، وہاں کے باشندوں کے درمیان آپؐ کو اہلِ مکہ سے بھی زیادہ سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہاں کے سرداروں نے آپؐ کو سختی کے ساتھ جھڑک دیا اور وہاں کے شرارت پسند آپؐ کے پیچھے لگ گئے۔ پھر انھوں نے آپؐ پر اس قدر پتھر برسائے کہ آپؐ کے دونوں پائے مبارک لہولہان ہوگئے۔ اس وقت آپؐ کا دل شدتِ الم سے چْور چْور تھا۔ ظالموں نے مکہ سے طائف تک کے طویل سفر کے بعد آپؐ کو دم لینے کی مہلت بھی نہ دی تھی۔ اس لیے آپؐ طائف کی آبادی سے باہر نکل کر ایک کھلی جگہ میں بیٹھ گئے، جہاں شاید بجز آپؐ کے خادم و غلام سیدنا زیدؓ بن حارثہ کے نہ کوئی مونس تھا، نہ غم گسار۔ آپؐ نے اس حال میں یہ دْعا فرمائی، جو آپؐ کی زخموں سے چْور لیکن حلیم شخصیت کی راست ادبی تصویر ہے، ترجمہ:
’’اے اللہ! میں آپ سے اپنی کمزوری اور بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین ذات! آپ مجھے کس کے حوالے کر رہے ہیں؟ کیا اس دْور دراز شخص کے جو مجھ سے برہمی کے ساتھ پیش آتا ہے؟ یا آپ نے میری زمامِ کار کسی دشمن کو سونپ دی ہے؟ لیکن اگر آپ مجھ سے ناراض نہیں تو مجھے ان سب کی کچھ پروا نہیں ہے۔ مگر پھر بھی آپ کے سایۂ عافیت میں میرے لیے زیادہ گنجایش ہے۔ میں آپ کی ذات کے اس نْور کی پناہ چاہتا ہوں، جس سے ظلمتیں روشن ہیں اور جس کے سہارے دْنیا و آخرت کے تمام اْمور اپنے صحیح رْخ پر چل رہے ہیں۔ اس بات سے پناہ کہ مجھ پر آپ کا غصہ اْترے اور آپ ناراضی نازل فرمائیں۔ آپ ہی کا حق ہے کہ آپ کو منایا جائے تاآنکہ آپ راضی ہوجائیں۔ آپ کی مدد کے بغیر نہ کسی طاقت کا وجود ہے، نہ قوت کا۔ [الطبرانی، کتاب الدعاء)
اس دْعا میں آپؐ اپنے پروردگار غالب و قادر و مہربان کے سامنے اپنی ناتوانی کا بیان فرما رہے ہیں، جو اس وقت عملاً سامنے آئی اور وہ یہ کہ رْوسائے ثقیف کے سامنے آپؐ کی ایسی بے وقعتی ہوئی جو آپؐ جیسے قریشی کے لیے بالکل نئی چیز تھی۔ کیونکہ قبیلۂ ثقیف کے قریش کے ساتھ قریبی برادرانہ روابط تھے۔ پھر اپنے پروردگار سے مہربانیوں کی طلب کرتے ہوئے اور اس کی جناب میں الحاح و زاری کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں: رَبّْ المْستَضعَفِین، (اے کمزور سمجھ لیے جانے والوں کے پالنہار)، پھر اللہ سے رحمت کی خواستگاری کرتے ہوئے یوں کہتے ہیں: اِلٰی مَن تَکِلْنِی؟ اِلٰی عَدْوٍّ یَتَجَھَّمْنِی اَم اِلٰی قَرِیبٍ مَلَّکتَہْ اَمرِی؟ (آپ مجھے کس کے حوالے کررہے ہیں؟ کیا اس دْور دراز شخص کے جو مجھ سے برہمی کے ساتھ پیش آئے؟ یا آپ نے میری زمامِ کار کسی دشمن کو سونپ دی ہے؟)۔ پھر آپؐ کو تنبیہ ہوتی ہے اور آپؐ تاسف و اضطراب کی کیفیت پر قابو پالیتے ہیں۔ یہ حقیقت پیش نظر آجاتی ہے کہ آپؐ کا ربّ ان سب باتوں کو جانتا ہے۔ آپؐ کا کوئی معاملہ اس سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور نہ وہ آپؐ سے غافل ہے۔ اسی نے تو آپؐ کو منتخب فرمایا اور منصب ِ رسالت پرفائز کیا ہے، نیز تبلیغ رسالت کی ذمے داری عائد کی ہے، تو کیا وہ آپؐ کو یوں ہی بے یارومددگار چھوڑ دے گا؟ لیکن آخر یہ سب کچھ ہوا کیوں کر؟ کیا آپؐ کا پروردگار آپؐ سے ناراض ہے؟ اس لیے عرض کرتے ہیں:
’’اگر آپ مجھ سے ناراض نہیں ہیں تو یہ جو کچھ ہوا مجھے اس کی پروا نہیں ہے، مگر پھر بھی آپ کا سایۂ عافیت میرے لیے زیادہ گنجایش رکھتا ہے‘‘۔
پھر آپؐ اللہ تعالیٰ سے پناہ کی درخواست، اس کی عظمت و رحمت کا تذکرہ اور ہمیشہ کی رضا کا سوال کرتے ہیں، کیونکہ اس کی مدد کے بغیر نہ طاقت کا وجود ہے اور نہ قوت کا۔
دْعا و مناجات کلامِ انسانی کی جولاں گاہ ہے، جہاں صاحب ِ دْعا کے باطنی احساسات صاف نظر آتے ہیں۔ جہاں اس کے بے چین و غم زدہ دل کی تصویر سامنے آجاتی ہے، اور جہاں جذبات مجسم ہوجاتے ہیں اور الفاظ کا ایسا جامہ پہن لیتے ہیں کہ ان میں اثرانگیزی کی صفت پیدا ہوجاتی ہے، اور وہ سننے والے کے دل میں اپنی جگہ بنالیتے ہیں۔ پھر اگر صاحب ِ دْعا کا یہ رْتبہ ہو کہ زبان و بیان پر اس کی اعلیٰ درجے میں گرفت ہو اور اس کا کلامِ بلاغت کا درجہ رکھتا ہو، تو ایسی صورت میں قاری و سامع، صاحب ِ دْعا کے الفاظ میں اس کی روح کو چھو کر محسوس کرسکتا۔
چنانچہ، رسولؐ کی دْعائوں کی یہی شان ہے۔ ان میں آپؐ کی معجزانہ بلاغت پوری طرح جلوہ گر ہے اور یہ ایسی خصوصیات و امتیازات سے مزین ہیں، جن کا سرچشمہ قرآنِ پاک کی مؤثر تعلیمات ہیں، کیونکہ اگلے انبیا و رْسل علیہم السلام کی دْعائوں کے مؤثر قرآنی نمونے آپؐ پر نازل ہوئے اور آپؐ نے انھی کی آغوشِ رحمت میں تربیت پائی۔ یہ دیکھنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ آپؐ نے اپنے باطنی احساسات کی تصویرکشی اور ترجمانی کس طرح فرمائی ہے؟ اس کی ایک مثال تو وہ دْعا تھی جس کا ذکر طائف کے سلسلے میں گزر چکا۔
دوسری مثال دْعائے بدر ہے۔ اس دن بھی آپؐ پر بے چینی اور اضطراب کی اثرانگیز کیفیت طاری تھی۔ اس دن مسلمان، آپؐ کی قیادت میں پہلی بار دشمنانِ کفّار کے مقابل صف آرا ہوئے تھے۔ یہ اسلام کے حق میں ایک فیصلہ کن دن تھا۔ وہ اسلام جس کی تبلیغ اور استحکام کے لیے رسولؐ نے اپنی تمام صلاحیتیں اور قوتیں لگا دی تھیں۔ اس کے بچائو کی تدبیریں کی تھیں اور اس کی راہ میں آپؐ نے اور آپؐ کے نیکوکار صحابہ نے ہر طرح کی اذیتیں جھیلی تھیں۔ یقینا یہ ایک عظیم الشان فیصلہ کن دن تھا۔ اس دن کفّارِ مکّہ چاہتے تھے کہ اپنی تمام تر طاقت، قوت اور شان و شوکت کا مظاہرہ کریں اور اسلام کے خلاف جو کچھ کرسکتے ہیں ، کرگزریں۔
رسولؐ نے بھی حریف کے مقابل اپنے لشکر کو صف آرا کیا، اور مقدور بھر تیاری اور سازوسامان کی فراہمی کی، اور پھر تنہائی میں ایک چھپر تلے اپنے ربّ کے حضور مصروفِ دْعا و مناجات ہوگئے۔ وہاں بجز سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے اور کوئی نہ تھا۔ رسولؐ کی یہ کیفیت تھی کہ آپؐ اپنے ربّ سے اس مدد کی طلب فرما رہے تھے، جس کا اللہ کی طرف سے وعدہ تھا۔ دْعا کے درمیان خاتم الانبیاؐ کی زبانِ مبارک پر یہ کلمات جاری تھے، ترجمہ:
’’اے اللہ! اگر آج کے دن یہ مٹھی بھر جماعت مٹ گئی، تو پھر آپ کی عبادت نہ کی جاسکے گی‘‘۔ دلائل النبوہ للبیہقی)
پھر آپؐ کی مناجات اور الحاح و زاری اس قدر بڑھ گئی کہ آپؐ کے رفیق سیدنا ابوبکرصدیقؓ بے چین ہوکر کہہ اْٹھے: ’’اے اللہ کے نبیؐ! اب بس کیجیے۔ اللہ تعالیٰ آپؐ سے کیے ہوئے وعدے کو ضرور پورا فرمائے گا‘‘۔
دْعائے بدر کے سلسلے میں راویوں سے یہی چھوٹا سا جملہ منقول ہے، جسے آپؐ کے الحاح و اضطراب کی ایک علامت اور سْلگتے ہوئے احساسات کی ترجمانی کہہ سکتے ہیں۔ اگر دْعا کی پوری عبارت منقول ہوتی، جس کا یہ جملہ ایک جزو ہے، تو وہ شدتِ تاثیر اور خوبیٔ ادا کی ایک اور شان دار مثال سامنے آتی۔ اس کا کسی قدر اندازہ ہم آپؐ کی ایک دوسری دْعا، ’دْعائے عرفات‘ سے لگا سکتے ہیں۔ یہ دْعا بھی آپؐ کے احساساتِ قلب کی تصویر اور ربّ العالمین کے حضور عبودیت ِ خالصہ کی تعبیر ہے۔ اس دْعا کے الفاظ میں ایک خاص طرح کی متانت اور اسلوب میں نرمی و لطافت ہے۔ عرض کرتے ہیں، ترجمہ:
’’اے اللہ! آپ میری باتوں کو سن رہے ہیں، میری صورتِ حال کو دیکھ رہے ہیں۔ میرا باطن و ظاہر آپ کے علم میں ہے، میرا کوئی معاملہ آپ سے مخفی نہیں‘‘۔ (المعجم الکبیر للطبرانی)
اس کلام میں رسولؐ، جلیل و کریم ربّ کے حضور اپنی ناتوانی کا اعتراف فرما رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ اپنے ربّ کے حضور، بندے کی حالت و کیفیت دوسرے تمام احوال و کیفیات سے غایت درجہ مختلف ہوتی ہے۔ اسے نہ کسی بادشاہ اور اس کی کسی رعایا کی وضع و کیفیت کے مشابہ کہہ سکتے ہیں، اور نہ کسی آقا اور اس کے کسی غلام کی صورتِ حال کے مماثل قرار دے سکتے ہیں۔ یہاں تو یہ کیفیت ہے کہ ربّ العالمین کی بارگاہ میں اس کا ایک بندہ حاضر ہے، جسے اپنے ربّ کی کامل و ہمہ جہت ربوبیت پر پورا ایمان اور اس قدرتِ کاملہ پر کْلی اعتماد ہے۔ آپؐ نے اس دْعا میں ربِّ عظیم کے سامنے اپنی حالت ِ زار پیش کی ہے اور چنانچہ عرض کرتے ہیں، ترجمہ:
’’میں ہوں بے چارہ، مصیبت زدہ، محتاج، فریادی، پناہ جْو‘‘۔ (المعجم الکبیر للطبرانی)
آپؐ نے ان کلمات کے ذریعے، اس اشارئہ ربانی کی موافقت فرمائی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ اپنے رسولؐ سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں، ترجمہ:
’’قسم ہے روزِ روشن کی اور رات کی، جب کہ وہ سکون کے ساتھ طاری ہوجائے، (اے نبیؐ) تمھارے ربّ نے تم کو ہرگز نہیں چھوڑا اور نہ وہ ناراض ہوا۔ اور یقیناً تمھارے لیے بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہے، اور عنقریب تمھارا ربّ تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہوجائو گے۔ کیا اْس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانا فراہم کیا؟ اور تمھیں ناواقفِ راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی۔ اور تمھیں نادار پایا اور پھر مال دار کر دیا‘‘۔ (الضحٰی: 1-8)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے وقتِ چاشت اور وقتِ صبح کو اس بات کا گواہ بنایا ہے کہ رسولؐ کے ساتھ اس کا معاملہ خصوصی توجہ اور رحمت ِ خاص کا ہے، اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے لیے حالتِ احتیاج و ناتوانی میں وسائل زندگی فراہم کیے۔ کیونکہ وراثت میں آپؐ کو نہ مال ملا، نہ دولت۔ پھر آپؐ کا کوئی کفیل بھی نہ تھا کیونکہ آپؐ کی پیدائش سے پہلے ہی والد ماجد وفات پاچکے تھے اور ابھی عہدِ طفولیت ہی تھا کہ والدہ محترمہ بھی چل بسیں، پھر کم سنی ہی میں مکرم و معظم دادا کا بھی انتقال ہوگیا۔ اس طرح جب آپؐ نے رواں دواں زندگی کے حدود میں قدم رکھا تو آپؐ بے سروسامانی میں تھے لیکن ربّ رؤف نے آپؐ کی دست گیری فرمائی اور آپؐ کے لیے اسبابِ غنٰی فراہم کر دیے۔ تلاوتِ قرآن رسولؐ کا معمول تھا ہی، اس لیے آپؐ اپنی دْعا میں ان تمام اْمور کو ملحوظ رکھ کر عرض کرتے ہیں، ترجمہ:
’’میں ہوں بے چارہ، مصیبت زدہ، محتاج، فریادی، پناہ جْو‘‘۔ (المعجم الکبیر للطبرانی)
پھر جب آپؐ کی نگاہ تبلیغِ رسالت کی اس عظیم ذمے داری کی جانب ملتفت ہوئی، جو آپؐ کے کندھوں پر ڈال دی گئی تھی، اور جس کے بوجھ تلے پشت ِ مبارک گویا ٹوٹی جارہی تھی۔ جب آپؐ نے راہِ تبلیغ میں اپنی کوششوں کا جائزہ لیا اور انھیں درجۂ مطلوب سے کم سمجھا تو آپؐ پر خشیت طاری ہوگئی اور اعترافِ خطا کا اعلان فرماتے ہوئے مصروفِ دْعا ہوگئے، ترجمہ:
’’میں ہی ہوں اپنی خطائوں کا معترف اور مقر‘‘۔
پھر آپؐ نے احساسِ ناتوانی کی اس فضا میں کامل درجہ الحاح و زاری کے ساتھ عرض فرمایا، ترجمہ:
’’میں ایک بڑے بے کس کی طرح آپ سے سوال کرتا ہوں اور اس شخص کی طرح گڑگڑاتا اور آہ و زاری کرتا ہوں جو خطاکار بھی ہو اور بے عزّت بھی ہو، اور خوف زدہ و آفت رسیدہ شخص کی طرح آپ کو پکارتا ہوں، جس کی گردن آپ کے آگے جھکی ہوئی ہو اور جس کا بدن احساسِ ذلّت سے دبا جارہا ہو اور جو کہ احساسِ ندامت سے ناک رگڑ رہا ہو‘‘۔ (معجم الشیوخ لابن جمیع الصیداوی)
اس حالت سے بڑھ کر فروتنی اور لجاجت کی اور کون سی حالت ہوگی، جس میں ناتوانی، بے کسی اور تحیر کی تمام کیفیات جمع ہوگئی ہیں۔ اور جس کی ترجمانی رسولؐ نے ربِ قادر و جلیل کی ربوبیت کے سامنے عبدیتِ کاملہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمائی ہے، ترجمہ:
’’اے اللہ! میں نے یہ دْعا جو آپ سے کی ہے، اس میں مجھے ناکام نہ بنایئے، مجھ پر مہربان و رحیم ہوجایئے۔ ان سب سے بہتر جن سے مانگا جائے اور اے ان سب سے بہتر جو دے سکتے ہوں‘‘۔ (المعجم الصغیر للطبرانی)
رسولؐ نے ان کلمات کے ذریعے اپنے ربّ کو پکارا ہے۔ اس سے سرفرازی، رحمت، حفاظت اور مہربانی کی درخواست کی ہے۔