کیا بلوچستان پاکستان سے الگ ہورہا ہے (پہلا حصہ)

354

کوئٹہ سے آنے والی دوست کی گفتگو کا خلاصہ یہی تھا کہ اہل بلوچستان ایک ایسے مقام کی جستجو میں ہیں جسے وہ اپنی سوچوں، محسوسات اور خواہشات کے ساتھ مربوط کرسکیں لیکن پاکستان میں ان کے لیے ایسا کوئی مقام موجود نہیں۔ اگر میں ان کی بات درست طور پر سمجھ پایا تو اہل بلوچستان اور پاکستان 76 برس گزرجانے کے باوجود ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں۔ اب وہ پاکستان کے ساتھ رہنے میں سنگین مشکلات محسوس کررہے ہیں جو ان کی بقا اور فنا سے جڑی ہیں۔ یہ کچھ دہشت گردگروہوں اور ناراض احتجاجیوں کا مسئلہ نہیں ہے، علٰیحدگی کی تحریک بلوچستان کے عوام میں جڑیں رکھتی ہے جس کو حقیقی اہمیت دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ یہ محض آرزومندی نہیں ہے وہ پاکستان کو تج کر ایک نئی دنیا کی آگ اپنے سینوں میں روشن محسوس کرتے ہیں۔ آئیے اس آگ کے شعلوں کی حدت کا جائزہ لیتے ہیں جو مسلح گروہوں نے قیام پاکستان کے بعد ہی بھڑکا دی تھی۔ افواج پاکستان پر حملوں اور گوریلا جنگ کے ذریعے کیا وہ اپنے ہدف تک پہنچ جائیں گے؟ لیکن اس سے پہلے بلوچستان کے بارے میں چند حقائق جان لیجیے:

آشفتہ سر پہاڑوں اور صحرائوں کی رفاقت میں بلوچستان پاکستان، افغانستان اور ایران کے درمیان پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع صوبہ بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ شہر ہے۔ جنوب مشرقی ایران میں صوبہ سیستان بلوچستان موجود ہے، جس کا دارالحکومت زاہدان شہر ہے۔ جنوبی افغانستان میںیہ 100 کلومیٹر سے زیادہ پھیلا ہوا ہے اور اس میں جنوبی صوبوں نمروز، ہلمند اور قندھار کے کچھ حصے شامل ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے بلوچستان کا پاکستانی حصہ سب سے اہم حصہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہاں تقریباً 20 ملین بلوچ اور پشتون آباد ہیں اور اس کا رقبہ پاکستان کا تقریباً 44 فی صد ہے اور پاکستان کی تقریباً 240 ملین آبادی کا تقریباً 6 فی صد اس میں رہتا ہے۔ جب کہ ایرانی حصے میںتقریباً 30 لاکھ افراد آباد ہیں جب کہ افغان حصے میں بلوچوں کی تعداد دس لاکھ سے بھی کم ہے۔ ان تینوں ممالک میں بلوچستان کے تقریباً تمام لوگ سنی مسلمان ہیں۔ یہ علاقہ 23 ہجری کے اوائل میں سیدنا عمرؓ کے دور میں اسلامی خلافت کا حصہ بنا۔

یہ قدرتی وسائل بالخصوص گیس اور معدنیات کے لحاظ سے پاکستان کے مالا مال علاقوں میں سے ایک ہے۔ بلوچستان کو تانبے اور سونے کے لیے دنیا کے سب سے بڑے مقامات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ کینیڈین کان کنی کمپنی بیرک گولڈ (Barrick Gold) بلوچستان میں واقع ریکوڈک کان کے تقریباً 50 فی صد کے مالک ہیں۔ بلوچستان پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا ایک اہم حصہ تسلیم کیا جاتا ہے، چائنا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (Chinese Belt and Road Initiative) کے تحت بحیرہ عرب تک پہنچنے کے لیے چین مالی اعانت فراہم کرتا ہے جہاں گوادر کی بندرگاہ خلیج عمان کے قریب واقع ہے۔ چین گوادر میں ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ بھی تعمیر کر رہا ہے۔ یوں پاکستان کے لیے بلوچستان کی اہمیت میں ہر نئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔

جہاں تک بلوچستان میں علٰیحدگی پسند قوم پرست گروہوں کا تعلق ہے وہ 1960 کی دہائی کے اواخر ہی سے پاکستانی فوج کے خلاف گوریلا جنگ میں سرگرم ہیں۔ ان گروہوں میں سب سے بڑا ’’بلوچستان لبریشن آرمی‘‘ ہے جس کی بنیاد 2000ء میں رکھی گئی۔ یہ گروپ مقامی طور پر ایک اور بڑے گروپ سے اتحاد رکھتا ہے۔ ’’بلوچ لبریشن فرنٹ‘‘ سب سے پرانا گروپ ہے جس نے افواج پاکستان کے خلاف 1964 ہی میں اپنے آغاز کے ساتھ ہی محاذ کھول دیا تھا۔ اس گروپ نے ایران کے اندر ایرانی افواج کے خلاف بھی کارروائیاں کیں۔ ان کے علاوہ کم اہمیت کے حامل دوسرے گروپ بھی ہیں۔

یہ گروپ مختلف ادوار میں دنیا کی مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ہدف رہے اور ان سے مالی تعاون اور عسکری امداد حاصل کرتے رہے۔ 1979ء میں افغانستان پر قبضے کے علاوہ سوویت یو نین نے بلوچستان میں علٰیحدگی پسند گروہوں کی حمایت بھی شروع کردی تھی۔ 1979 میں ہی ایران میں خمینی انقلاب کی کامیابی اور ایران عراق جنگ شروع ہونے کے بعد عراقی حکومت نے ایران میں فوجی کارروائیوں کے لیے ان گروہوں کی حمایت کرنا شروع کردی۔ بھارت بھی ان گروہوں کی حمایت میں پیچھے نہیں رہا۔ جس نے مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی کشمیری مجاہدین کی ہر طرح کی مددکا بدلہ بلوچستان میں محاذ کھول کر لینے کا فیصلہ کیا۔ بھارت کو چین کے خلاف اپنے محور کا ایک ستون بنانے کے لیے بھی بھارت کے ساتھ ساتھ امریکا نے بلوچستان کے باغی گروہوں کی مدد کرنا شروع کردی جس کا مقصد افواج پاکستان کو اندرونی لڑائیوں میں الجھانا اور مصروف رکھنا تھا تاکہ وہ بھارت سے محاذ آرائی اور مقبوضہ کشمیر میں اس کے لیے مشکلات پیدا کرنے سے دور رہے۔

یہ وہ حقائق ہیں جو بلوچستان میں بغاوت اور باغی گروہوں اور مسلح دھڑوں کی حقیقت، ان کی طاقت، اثر اور پاکستانی فوج کے خلاف گوریلا جنگ کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں۔ گزشتہ دہائیوں میں ان حملوں میں درآنے والی تیزی اور حاصل جمع کے کیا محرکات اور کیا اسباب ہیں ان کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل حقائق کو نظر میں رکھنا ضروری ہے:

افغانستان پر امریکی قبضے سے پہلے بلوچستان کے مسلح گروہ اور دھڑے پاکستانی حکومتوں سے کسی نہ کسی سطح پر رابطے میں تھے اور ان کے ساتھ امن معاہدے ممکن رہتے تھے یہی وجہ ہے کہ جنرل ضیا الحق کا دور اور 90ء کی دہائی بلوچستان میں امن وامان کے حوالے سے سب سے خوشگوار دور تھا لیکن خطے میں امریکا کی آمد کے ساتھ ہی 2003ء میں بلوچستان لبریشن آرمی اور دوسرے گروہوں کے حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ 2006ء میں بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی کی پاکستانی فوج کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ان حملوں میں مزید تیزی آگئی جس کے ساتھ ہی حالات کی کشیدگی میں بھی بڑی تیز رفتاری سے اضافہ ہوا۔

پچھلے مہینے 25 اور 26 اگست 2024ء کو بلوچستان لبریشن آرمی نے جس بڑی تعداد میں انسانوں کا قتل عام کیا اور دہشت گردی کی جو تاریخ رقم کی اس سے پاکستان بے چینی اور پریشانی کے ایک دوسرے ہی عالم میں محسوس کیا جانے لگا۔ بلوچستان کی ایک شاہراہ، پولیس اسٹیشنوں ریلوے لائنوں اور گاڑیوں کو نشانہ بناتے ہوئے 73 افراد کو شہید کردیا گیا۔ بلوچستان کی علٰیحدگی کی بازگشت پورے ملک میں گونجنے لگی۔ سب سے زیادہ پرتشدد حملے پیر، 26 اگست 2024ء کو ضلع موسیٰ میں بلوچستان اور پنجاب کے صوبوں کو ملانے والی ایک شاہراہ پر ہوئے، جہاں مقامی ذرائع کے مطابق، مسلح افراد نے بسوں اور ٹرکوں کو روکا اور 23 پنجابی مزدوروں کو ان کی شناخت کی تصدیق کرنے کے بعد گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ پاکستانی فوج نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ اس نے بلوچستان میں 21 علٰیحدگی پسند عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے اعداد و شمار کے مطابق 2023ء میں تقریباً 110 حملے ہوئے تھے اور 2024ء کے صرف ابتدائی مہینوں میں ہی تقریباً 62 حملے ہو چکے تھے۔ (الجزیرہ، /2024 26/8 (جاری ہے)