نماز عشق ادا ہوئی ڈیزل کی امامت میں

471

آسماں دکھاتا ہے رنگ کیسے کیسے مولانا فضل الرحمان کی رہایش گاہ پر بانی پی ٹی آئی کے درباریوں نے نہ صرف گھٹنے ٹیکے بلکہ مولانا نے ان تمام درباریوں کو اپنی امامت میں نماز مغرب بھی ادا کروائی، اسی دن کے لیے کہا جاتا ہے کہ جوش خطابت میں اپنی زبان کو قابو رکھیں، کون جانے کب کس کا پلڑا بھاری ہو اور آپ کو کب کس کی جھولی میں گرنا پڑ جائے، سیاست میں اکثر ایسے تضادات دیکھنے کو ملتے ہیں، جہاں ایک وقت میں سخت تنقید کرنے والے لوگ بعد میں مختلف حالات کے تحت اپنے رویے تبدیل کر لیتے ہیں، سیاست میں یہ بات نہ شرمندگی کی علامت ہے نہ ندامت کی، یہ تبدیلیاں سیاسی مفادات، حالات یا طاقت کے تقاضوں کے تحت ہوتی ہیں۔

حالیہ دنوں میں اس حیران کن منظر نے پاکستانی عوام کو حیرت میں مبتلا کر دیا، وہی لوگ جو مولانا فضل الرحمن کو سخت الفاظ میں یاد کرتے تھے اور ان کے کردار پر سوال اٹھاتے تھے، بلکہ اپنے جلسوں میں ان کو مولانا کہنا گناہ کہا کرتے تھے، آج انہی کی امامت میں نماز ادا کر رہے ہیں، تھوک کر چاٹنا اسی کو کہتے ہیں، یہ منظر صرف ایک سیاسی اتحاد کا نتیجہ نہیں بلکہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح سیاسی مفادات اور حالات وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے ہیں۔ اس تبدیلی کا ایک بڑا محرک پاکستان کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتِ حال اور مفادات کی کشمکش ہے۔ موجودہ حکومت کے خلاف اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد کی ضرورت نے ماضی کی دشمنیوں کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ماضی کے شدید مخالفین آج ایک ساتھ کھڑے ہیں، اور یہی پاکستانی سیاست کا وہ مکروہ چہرہ ہے کہ کس تیزی سے اپنا رنگ بدلتا ہے، ویسے تو پاکستانی سیاست میں تضادات اور بدلتے تعلقات کی کہانی کوئی نئی نہیں ہے، یہ ایک ایسی دنیا ہے جہاں اصول، نظریات اور قول و فعل کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اور سیاست دان اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ماضی کے سخت ترین دشمن کو بھی وقت آنے باپ بنانے میں دیر نہیں لگاتے، اس واقع سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سیاست میں اصولوں کی کوئی جگہ نہیں، یا پھر یہ صرف مفادات کا کھیل ہے جہاں اصولوں کو قربان کیا جا سکتا ہے، مولانا فضل الرحمان اور عمران خان کے درمیان جاری تنازعے نے اس بات کو بخوبی واضح کیا ہے کہ پاکستانی سیاست میں اصولوں سے زیادہ وقتی مفادات کو اہمیت دی جاتی ہے،کیونکہ مولانا کی امامت میں وہی لوگ نماز ادا کر رہے تھے، جنہوں نے کل تک ان کے خلاف بدزبانی کی تھی۔ یہ منظر اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ سیاست میں وقتی مفادات، اور دنیاوی فائدے کے لیے کسی بھی حد تک جایا جا سکتا ہے، اور ماضی کے دشمن آج کے حلیف بن سکتے ہیں، پاکستان تحریک ِ انصاف کے بانی عمران خان اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے درمیان اختلافات ہمیشہ واضح اور عوامی رہے ہیں۔ عمران خان نے کئی جلسوں میں مولانا فضل الرحمان کو غیر شائستہ الفاظ میں یاد کیا، انہیں ’’ڈیزل‘‘ جیسے ناموں سے پکارا اور مولانا کے سیاسی کردار پر شدید تنقید کی۔ عمران خان کی یہ تنقید محض الفاظ تک محدود نہیں تھی بلکہ ایک مسلسل مہم کا حصہ تھی، جس میں مولانا کو ایک ایسے سیاستدان کے طور پر پیش کیا گیا جو مفادات کے لیے اصولوں کی قربانی دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یہ تنازع ایک ایسی سیاسی دشمنی میں بدل گیا جہاں دونوں رہنما ایک دوسرے کے خلاف سخت مؤقف اپناتے رہے۔ عمران خان کے جلسے عوامی اجتماعات میں مولانا کو طنز و تضحیک کا نشانہ بناتے رہے، اور مولانا فضل الرحمان نے بھی عمران خان پر سخت تنقید کرتے ہوئے انہیں مغربی ایجنڈ اور اسلامی اقدار کا مخالف قرار دیتے رہے، آخر میں صرف اتنا کہوں گا، مولانا فضل الرحمان اور بانی پی ٹی آئی کے تعلقات کا یہ حیران کن سفر، جس میں تذلیل سے لے کر امامت تک کی داستان شامل ہیں، اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ سیاست میں کوئی بھی چیز مستقل نہیں ہوتی۔ ’’نماز عشق‘‘ کا یہ سیاسی منظر ایک یاد دہانی ہے کہ سیاست کے رنگ ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں، اور ان رنگوں میں کبھی اصول تو کبھی مفاد غالب آجاتے ہیں۔ عوام کو ان تضادات کو سمجھتے ہوئے عقل و شعور کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ وہ ان سیاسی کھیلوں کے پیچھے چھپے حقیقی مقاصد کو جان سکیں۔

اس ساری صورتحال سے ایک اہم سبق یہی ملتا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی محبت میں اندھا دھند پیروی کرنا عوام کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ سیاستدان اپنے مفادات، اقتدار اور طاقت کے کھیل میں عوام کو استعمال کرتے ہیں، جبکہ عوام کو اپنی ذاتی زندگی اور تعلقات میں توازن برقرار رکھنا چاہیے۔ اپنے پیاروں سے ناراضی یا تعلقات میں دراڑ ڈالنا صرف اس وجہ سے کہ آپ کسی سیاسی جماعت یا رہنما کے حمایتی ہیں، دانش مندی نہیں ہے۔ سیاستدانوں کی محبت میں اس قدر آگے نہ بڑھیں کہ خود کو یا اپنے تعلقات کو نقصان پہنچائیں، کیونکہ ان کا مقصد عوام کی بہتری سے زیادہ اپنے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے اور سیاست میں ’’نماز عشق‘‘ ہمیشہ مفادات کی امامت میں ہی ادا ہوتی رہی ہے اور شاید آگے بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا۔