ایک قتل کی کہانی

268

یہ بات ہے 9 اگست کی جب بھارت کی مشرقی ریاست مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکتہ میں ایک جونیر ڈاکٹر کو نائٹ شفٹ کے دوران زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔ کہنے کو یہ ایک قتل تھا مگر اب یہ تماشے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ کولکتہ کے آر جے کار میڈیکل کالج اینڈ اسپتال میں جونیر ڈاکٹر کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کا واقعہ مودی سرکار کے لیے ڈگڈگی سے کم نہ تھا۔ یہ ڈگڈگی ڈیڑھ ماہ سے بجائی جارہی ہے اور روز بروز اِس ’’ڈگڈگاہٹ‘‘ میں تیزی ہی آتی جارہی ہے۔ مودی سرکار کو ہر اْس ریاست سے چِڑ ہے جہاں اْس کی حکومت نہیں۔ مرکزی حکومت کا کام مرکز کی تمام اکائیوں کو ترقی کے یکساں اور ہموار مواقع فراہم کرنا ہے مگر بھارتیہ جنتا پارٹی نے طے کرلیا ہے کہ جہاں بھی اْس کی حکومت نہیں ہوگی وہاں ترقی ہوگی نہ استحکام۔ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کی حکومت ہے۔ ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بینرجی مرکز میں بی جے پی کی حکومت کی شدید مخالف ہیں اور بارہا یہ بات واضح کرچکی ہیں کہ وہ کسی بھی قسم کا ناجائز دباؤ قبول نہیں کریں گی۔

ممتا بینرجی کا ناک میں دم کرنے کا ایک اچھا موقع جونیر ڈاکٹر کے قتل نے فراہم کیا ہے۔ جب یہ واردات ہوئی تب میڈیکل کمیونٹی کا خون کَھول اٹھا۔ اْس نے شدید احتجاج شروع کیا۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں کے مصداق بی جے پی نے یہ موقع جھپٹ لیا اور میڈیکل کمیونٹی کے پیچھے کھڑی ہوکر اْسے شہہ دینے لگی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ کولکتہ سے شروع ہونے والا احتجاج کئی شہروں اور پھر کئی ریاستوں تک پھیل گیا۔ احتجاج اْن ریاستوں میں زیادہ ہو رہا تھا جہاں بی جے پی کی حکومت نہیں تھی۔ مخالف جماعتوں کی ریاستی حکومتوں کو پریشان کرنے کا اِس سے اچھا موقع بھلا کب مل سکتا تھا؟ ڈاکٹرز نے جب کئی ریاستوں میں احتجاج شروع کیا تو معاملات بگڑنے لگے۔ اسپتالوں میں وارڈز بند ہونے لگے۔ مریضوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ سب کچھ ایک جونیر ڈاکٹر سے زیادتی و قتل کا نتیجہ تو تھا ہی مگر اْس سے کہیں بڑھ کر یہ سب کچھ مرکزی حکومت کی پشت پناہی کا اظہار تھا۔ مودی سرکار نے اس ایک واقعے کو بنیاد بناکر مغربی بنگال کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اب اِس سازش پر عمل بھی کروا رہی ہے۔

ممتا بینرجی کا جوش و جذبہ ختم کرنے کے لیے ڈاکٹرز کو اْکسایا جارہا ہے کہ کسی نہ کسی طور احتجاج کرتے ہی رہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ ڈاکٹرز اور پیرا میڈکس مورچہ لگائے بیٹھے ہیں۔ ملزم گرفتار کرلیا گیا تھا۔ تفتیش جاری ہے۔ تمام شواہد اْس کے خلاف جاتے ہیں اور سزا بھی مل کر رہے گی مگر میڈیکل کمیونٹی کی تشفی نہیں ہو رہی۔ سبب اس کا یہ ہے کہ مودی سرکار اْسے مسلسل اْکسا رہی ہے تاکہ کسی نہ کسی طور ممتا بینرجی کو پریشان کرکے استعفے کی منزل تک پہنچایا جاسکے۔

جب جونیر ڈاکٹر کے قتل پر ہنگامہ آرائی شروع ہوئی تو سرکاری اسپتالوں میں لیڈی ڈاکٹرز کی نائٹ شفٹ پر پابندی لگانے کی بات ہوئی۔ یہ مطالبہ ممتا بینرجی نے فوراً مان لیا۔ پھر کہا گیا ہے کہ سیکورٹی بڑھائی جائے۔ یہ مطالبہ بھی معقول تھا۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ جونیر ڈاکٹر کو میڈیکل کالج کی حدود میں زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا اس لیے اِسے امن ِ عامہ کا مسئلہ قرار نہیں دیا جاسکتا مگر ڈاکٹرز اور پیرا میڈکس بضد رہے کہ شہر کے تمام علاقوں میں لیڈی ڈاکٹرز کی سیکورٹی بڑھائی جائے۔ یہ مطالبہ بے بنیاد تھا۔ ریاستی حکومت کا استدلال تھا کہ شہر میں چپے چپے پر پولیس تعینات کرنا کسی طور ممکن نہیں۔

جب احتجاج کئی شہروں تک پھیلا تو یہ تجویز سامنے آئی کہ صرف لیڈی ڈاکٹرز ہی نہیں بلکہ تمام خواتین رات کے وقت گھر سے نہ نکلنے کو ترجیح دیں۔ اور اگر گھر سے نکلنا لازم ہو تو کسی مرد کے ساتھ جائیں۔ اس تجویز پر میڈیکل کمیونٹی نے تو احتجاج کیا ہی، حقوقِ نسواں کی علم بردار تنظیمیں بھی میدان میں آگئیں۔ اْن کی ضد تھی کہ خواتین کو گھروں تک محدود رہنے کی ہدایت کرنے کے بجائے ریاستی حکومتیں نظم و نسق بہتر بنائیں، سیکورٹی کی سطح بلند کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ خواتین پر مجرمانہ حملے نہ ہوں۔ یہ بنیادی طور پر فضول اور احمقانہ ضد تھی جسے تسلیم کرنے سے مغربی بنگال کی حکومت نے انکار کیا اور اپوزیشن کی جماعتوں کی حکومت والی دیگر ریاستیں بھی پیچھے ہٹ گئیں۔

ایک جونیر ڈاکٹر کے قتل پر احتجاج کی ڈگڈگی اب تک بجائی جارہی ہے۔ ممتا بینرجی احتجاج کرنے والے ڈاکٹرز سے دو بار مل چکی ہیں۔ اْن کے مطالبات بڑھتے جارہے ہیں۔ ملاقاتوں کے دوران احتجاج کرنے والے ڈاکٹرز کا رویہ انتہائی ہتک آمیز رہا ہے۔ اْن کا ایک فضول مطالبہ یہ بھی رہا ہے کہ ملاقات ٹی وی پر براہِ راست نشر کی جائے۔ ڈاکٹرز نے احتجاج کے دوران کام بند کر رکھا ہے۔ سوال صرف مغربی بنگال کا نہیں، دیگر ریاستوں میں بھی ڈاکٹرز ڈیوٹی دینے سے گریز کر رہے ہیں یا پھر کم وقت دے رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عدالت عظمیٰ بھی ڈاکٹرز کو حکم دے چکی ہے کہ احتجاج اپنی جگہ مگر ڈیوٹی ضرور دیں۔ اس حکم کو بھی ڈاکٹرز نے یکسر نظر انداز کردیا ہے۔
ایک جونیر ڈاکٹر کے قتل پر جاری اس ڈرامے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فی زمانہ سوشل میڈیا اور دیگر عوامل کی ’’برکت‘‘ سے کسی بھی معاملے کو کس حد تک طْول دیا جاسکتا ہے اور کس طور ایک ریاستی حکومت کے لیے مسائل کے انبار لگائے جاسکتے ہیں۔
(انڈیا ٹوڈے، دی ہندو)