شریف خاندان کی ناپاک پنجابیت

645

پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور اسلام رنگ، نسل، زبان اور جغرافیے کے تشخص کو تسلیم نہیں کرتا۔ اقبال برصغیر میں آزاد مسلم ریاست کا خواب دیکھنے والے پہلے فرد نہیں تھے۔ ان سے پہلے کئی لوگ برصغیر میں آزاد مسلم ریاست کا تصور پیش کرچکے تھے مگر جو قبول عام اقبال کے تصور کو حاصل ہوا وہ کسی کے حصے میں نہ آسکا۔ کہنے کو اقبال پنجابی تھے مگر اقبال کی فکر امت گیر تھی۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا ہے۔

بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ ایرانی رہے باقی نہ تورانی نہ افغانی
٭٭
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
٭٭
ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

قائد اعظم کی فکر بھی امت گیر تھی اور وہ ہر طرح کے تعصبات کے سخت خلاف تھے۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا۔

’’میں چاہتا ہوں کہ آپ بنگالی، پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان وغیرہ کی اصطلاحوں میں بات نہ کریں۔ میں مانتا ہوں کہ یہ اپنی اپنی جگہ وحدتیں ہیں۔ لیکن میں پوچھتا ہوں، کیا آپ وہ سبق بھول گئے ہیں جو تیرہ سو سال پہلے آپ کو سکھایا گیا تھا؟ اگر مجھے اجازت دی جائے تو کہوں گا کہ یہاں آپ سب باہر کے آئے ہوئے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں، بنگال کے اصلی باشندے کون تھے؟ وہ ہرگز نہیں جو آج کل بنگال میں رہتے ہیں۔ پس یہ کہنے کا آخر کیا فائدہ ہے کہ ہم پنجابی ہیں، ہم سندھی ہیں، ہم پٹھان ہیں؟ نہیں، ہم مسلمان ہیں۔

اسلام نے ہمیں یہی سبق دیا ہے، اور آپ یقینا مجھ سے اتفاق کریں گے کہ آپ خواہ کچھ بھی ہوں اور کہیں بھی ہوں، آپ اول و آخر مسلمان ہیں۔ اب آپ ایک باقاعدہ قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب آپ نے ایک وسیع علاقہ اپنے تسلط میں کرلیا ہے، جو آپ کا اپنا ہے۔ یہ پنجابیوں کا ہے نہ سندھیوں کا۔ پٹھانوں کا ہے نہ بنگالیوں کا۔ یہ آپ کا ہے۔ آپ کی اپنی ایک مرکزی حکومت ہے جس میں ان جغرافیائی وحدتوں کو نمائندگی حاصل ہے۔ اس لیے اگر آپ خود کو ایک قوم، ایک عظیم قوم کے سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں تو خدا کے لیے اس صوبائی عصبیت کو فوراً ترک کردیجیے۔ صوبائی عصبیت بھی سنی شیعہ وغیرہ کی فرقہ واری کی طرح ایک بہت بڑی لعنت ہے۔‘‘ (جلسہ عام ڈھاکہ۔ 21 مارچ 1948ء)

ایک اور جگہ قائد اعظم نے فرمایا۔

میں مسلمانوں سے چاہتا ہوں کہ وہ صوبائی تعصب کی بیماری سے چھٹکارا حاصل کریں۔ کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی جب تک کہ وہ ایک صف میں متحد ہو کر آگے نہ بڑھیں۔ ہم سب پاکستان کے شہری ہیں۔ پاکستان میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس لیے ہمیں بھی اس کا حق ادا کرنا چاہیے۔ ہمیں اس کی خدمت کرنی چاہیے۔ اس کے لیے قربانیاں دینی چاہئیں اور اگر یہ مانگے تو اپنی جان بھی نذر کردینی چاہیے، تا کہ یہ دنیا بھر کی ایک شاندار عظیم اور خوشحال مملکت بن جائے۔ (بار ایسوسی ایشن کراچی۔ 25 جنوری 1948ء)

بدقسمتی سے پاکستان کے فوجی اور سول حکمران اسلام، اقبال اور قائداعظم کی فکر کی توہین کرتے ہوئے پاکستان میں مدتوں سے طرح طرح کے تعصبات کا کاروبار کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں شریف خاندان نے تو بدمعاشی کی حد کردی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ میاں نواز شریف ’’اسلامی جمہوریہ اتحاد‘‘ کا حصہ تھے۔ اس اتحاد کے نام اور کام دونوں کا تقاضا تھا کہ میاں صاحب صرف اسلام کی بات کریں مگر انہوں نے اس کے برعکس اسلامی جمہوری اتحاد کی انتخابی مہم کے دوران اچانک ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کا نعرہ سیاسی فضا میں اچھال دیا۔ میاں نواز شریف اسلامی جمہوری اتحاد میں اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ میاں صاحب جاگ پنجابی جاگ تیری پگ کو لگ گیا داغ کی آڑ میں اسٹیبلشمنٹ کی زبان بول رہے تھے۔ یعنی جاگ پنجابی جاگ کے حوالے سے میاں نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ ایک ہی صفحے پر تھے۔ شریف خاندان کی ناپاک پنجابیت کی ایک بہت ہی بڑی مثال آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے اپنی کتاب اسپائی کرونیکل میں پیش کی ہے۔ جنرل درانی نے کتاب میں لکھا ہے کہ میاں شہباز شریف جب پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو وہ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ اس مسئلے پر بات کررہے تھے کہ بھارتی اور پاکستانی پنجاب کو کس طرح ایک کیا جائے۔ جنرل اسد درانی کی کتاب موجود ہے اور یہ کتاب ہم نے پڑھی ہے تو آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے لوگوں نے بھی پڑھی ہوگی مگر اس کے باوجود شریف خاندان کی ناپاک پنجابیت پر اب تک کسی نے بھی کوئی گرفت نہیں کی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پاکستانی اور بھارتی پنجاب کو ایک کرنے کے منصوبے کو ریاست پاکستان کی فوج اور خفیہ ادارے کوئی بری بات یا غداری نہیں سمجھتے۔ سمجھتے تو آج میاں شہباز شریف پاکستان کے وزیراعظم اور مریم نواز شریف پنجاب کی وزیراعلیٰ نہ ہوتیں اور ان کا جنرل سید عاصم منیر سے اتحاد نہ ہوتا۔ یہ کل ہی کی بات ہے کہ بجلی کے ہولناک بلوں پر عوام کے لیے رعایت کا اعلان ہوا تو صرف پنجاب کی جانب سے۔ بلاشبہ یہ ایک صوبائی معاملہ تھا مگر میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو چاہیے تھا کہ وہ اس سلسلے میں ’’پنجابی‘‘ بن کر سوچنے کے بجائے ’’پاکستانی‘‘ بن کر سوچتے اور پورے ملک کے عوام کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے کا اہتمام کرتے مگر بدقسمتی سے پورا شریف خاندان پنجابیت کے تعصب میں گلے گلے تک ڈوبا ہوا ہے۔ چنانچہ مریم نواز خود کو ’’اسلام کی بیٹی‘‘ یا ’’پاکستان کی بیٹی‘‘ نہیں ’’پنجاب کی بیٹی‘‘ کہتی ہیں۔ ہم گزشتہ بیس سال سے شریف خاندان کو پنجابیت کا ذکر کررہے ہیں اور رفتہ رفتہ یہ بات کئی لوگوں کی زبان پر آنے لگی ہے۔ حذیفہ رحمن روزنامہ جنگ کے کالم نویس تھے اور وہ میاں شہباز شریف کے اتنا قریب تھے کہ انہوں نے ایک بار اپنے کالم میں لکھا کہ مجھ سے زیادہ میاں شہباز شریف کو شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ انہی حذیفہ رحمن نے کچھ برسوں قبل جب میاں نواز شریف مجھے کیوں نکالا کا راگ الاپ رہے تھے اپنے کالم میں لکھا کہ اسٹیبلشمنٹ کو پہلی بار ’’پنجاب کے وزیراعظم‘‘ سے واسطہ پڑا ہے اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اسے کس طرح قابو میں کیا جائے۔ خورشید ندیم پنجاب کے ایک اہم کالم نگار اور دانش ور ہیں۔ انہوں نے ایک بار اپنے کالم میں لکھا کہ میاں نواز شریف اب ایک ’’عصبیت‘‘ کا نام ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ یہ عصبیت ’’اسلامی‘‘ ہے یا ’’پاکستانی‘‘ یا اس عصبیت کا تعلق صرف ’’پنجابیت‘‘ سے ہے۔ بدقسمتی سے خورشید ندیم نے ہمارے اس سوال کا جواب نہیں دیا۔ حامد میر خیر سے پنجابی بھی ہیں اور نواز لیگ کے خیر خواہ بھی اس کے باوجود انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھا ہے۔

’’مسلم لیگ (ن) دراصل وسطی پنجاب کی جماعت بن چکی ہے اور اس کے کئی حامی آج کل پنجابی کارڈ کھیلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ پنجابی زبان اور پنجابی کلچر سے محبت بڑی اچھی چیز ہے لیکن پنجابیت کے نام پر دوسری قومیتوں کے خلاف نفرت پھیلانا دراصل پاکستان دشمنی ہے‘‘۔ (روزنامہ جنگ۔ 5 ستمبر 2024ء)

یہ تمام حقائق بتارہے ہیں کہ جس طرح الطاف حسین ناپاک ’’مہاجریت‘‘ اور پیپلز پارٹی ناپاک ’’سندھیت‘‘ سے اوپر اٹھنے کے لیے تیار نہیں اسی طرح شریف خاندان ناپاک پنجابیت سے اوپر اٹھنے کے لیے آمادہ نہیں۔ بدقسمتی سے اس بات پر نہ فوج کو تشویش ہے نہ ہمارے خفیہ اداروں کو، اس کے برعکس فوج اور خفیہ ادارے کھلے عام شریف خاندان کی سرپرستی کررہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے جرنیل بھی اسلام، اقبال اور قائداعظم کی فکر سے ہم آہنگ نہیں۔ یہ جنرل ایوب تھے جن کے دور اقتدار میں کراچی کے اندر مہاجر پٹھان فساد ہوئے، یہ جنرل ضیا الحق اور جنرل جیلانی تھے جنہوں نے نواز شریف کو نواز شریف بنایا۔ یہ جنرل ضیا الحق تھے جنہوں نے الطاف حسین کے غبارے میں ہوا بھری اور کراچی میں مہاجر پٹھان اور مہاجر سندھی کی آویزش برپا کی۔ بھٹو صاحب خیر سے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کے علمبردار تھے اور تعصب کی گنجائش نہ اسلام میں ہے نہ سوشلزم میں تھی مگر اس کے باوجود انہوں نے سندھ پر لسانی بل مسلط کیا۔ انہوں نے کوٹا سسٹم ایجاد کرکے شہری اور دیہی سندھ کی تفریق کو گہرا کیا۔ جنرل پرویز نے کراچی میں ایم کیو ایم کو اس وقت کے چیف جسٹس کے خلاف استعمال کیا۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر خیر سے ’’سیّد‘‘ بھی ہیں اور ’’حافظ‘‘ بھی مگر اس کے باوجود انہیں شریف خاندان کی ’’ناپاک پنجابیت‘‘ نظر نہیں آرہی۔ اللہ ایسی کمزور نگاہ سے سب کو اپنی پناہ میں رکھے۔