پیجرز میں دھماکے : اسمارٹ فونز کو لاحق خطرات

281

لبنان بھر میں پیجرز کے پھٹنے کے واقعات سامنے آئے ہیں، جو بظاہر ایک جدید اور غیر متوقع مہلک حملہ معلوم ہوتے ہیں۔ اس حملے کی منفرد اور حیران کن نوعیت نے لوگوں میں تشویش پیدا کی ہے کہ آیا یہ جنگ کی ایک نئی قسم کی نشاندہی کرتی ہے۔ اور بہت سے لوگوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا ہماری روزمرہ استعمال کی ڈیوائسز واقعی محفوظ ہیں ۔

اس کا سادہ جواب ہے جی ہاں، وہ محفوظ ہیں۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ حملے یہ اشارہ کرتے ہیں کہ ہمارے اسمارٹ فونز اور دیگر ٹیکنالوجی جو ہم روزانہ استعمال کرتے ہیں، خطرے میں ہیں۔

یہ حملہ مستقبل کی چیزوں کی علامت ہو سکتا ہے جب ایک بار اسرائیل نے اسے استعمال کیا ہے، تو دوسرے ممالک بھی اس کی نقل کرنے پر غور کر سکتے ہیں۔ لیکن، حتیٰ کہ اس صورت میں بھی، کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ روزمرہ استعمال کی ٹیکنالوجی پر اثر انداز ہو۔

یہ اب تک واضح نہیں ہے کہ پیجرز پر حملے کیسے ہوئے۔ سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پیجر کے اندر چھوٹی مقدار میں دھماکہ خیز مواد رکھا گیا تھا، اور پھر پیجر کی کنکشن کا استعمال کرتے ہوئے اسے دور سے دھماکے سے اڑا دیا گیا۔

یہ معلوم کیے بغیر کہ حملہ آوروں نے پیجرز کو کیسے تبدیل کیا، یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ ہماری ڈیوائسز مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔

ڈینیئل کارڈ، جو BCS (The Chartered Institute for IT) کے رکن ہیں، کہتے ہیں کہ “عام افراد کو سپلائی چین کے حملے سے پلاسٹک دھماکہ خیز مواد کے ممکنہ خطرات کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔

“حالانکہ ایسے واقعات پریشان کن ہوتے ہیں، لیکن عام لوگوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ “موبائل فونز اور الیکٹرانک ڈیوائسز عام طور پر بہت محفوظ ہیں، اور دھماکوں سے متاثر ہونے کا امکان انتہائی کم ہے ۔”

حملے میں استعمال ہونے والے پیجرز نسبتاً پرانے اور بڑے ماڈلز تھے جن میں اندرونی جگہ کافی تھی اور انہیں آسانی سے کھولا جا سکتا تھا۔ آج کے اسمارٹ فونز کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ ان میں جگہ کم سے کم ہے، ایپل کو آئی فون میں مزید جگہ ملتی، تو وہ اسے چھوٹا بنانے یا مزید اجزاء شامل کرنے کے لیے استعمال کرتے۔

ایئر بڈز جیسے دیگر تکنیکی آلات تو اور بھی چھوٹے ہوتے ہیں، اور ان میں کسی بھی ممکنہ چھیڑ چھاڑ کو مزید واضح طور پر ظاہر کیا جا سکتا ہے۔

وسیع پیمانے پر دیکھیں تو کسی حملہ آور کو سپلائی چین میں گھسنا اور یا تو ڈیوائسز کو اندھا دھند نصب کرنا یا کسی طرح یہ یقینی بنانا کہ مخصوص پروڈکٹ ایک مخصوص صارف تک پہنچے، یہ انتہائی مشکل کام ہوگا۔

جدید سپلائی چینز اتنی بڑی اور محفوظ ہوتی ہیں کہ ایسا کرنا تقریباً ناممکن ہوگا۔

اس سب کا یہ مطلب نہیں کہ ہماری جیبوں میں موجود ڈیوائسز ناقابل تسخیر ہیں۔ سیکورٹی ایجنسیاں اور دیگر نجی تنظیمیں مسلسل ہماری ڈیوائسز میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہیں ۔

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسمارٹ فون بنانے والی کمپنیاں مسلسل کسی بھی ممکنہ خامی کو محفوظ بنانے پر کام کرتی رہتی ہیں۔ ایپل “لاک ڈاؤن موڈ” متعارف کرا چکا ہے، جو ایک خاص، بہت محدود سیٹنگ ہے ۔