افغانستان!! خواب سے سراب تک

481

خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پورنے افغانستان کی حکومت کے ساتھ از خود امن مذاکرات کا اعلان کیا ہے۔ علی امین گنڈا پور کے اس بیان پر وزیر دفاع خواجہ آصف اور کچھ بیانیہ ساز ٹی وی چینلوں نے مخالفت کا طوفان اُٹھا دیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان دو الگ ملک ہیں اور دونوں کے درمیان تعلقات کی نین نقش سنوار نا صوبائی کے بجائے وفاقی حکومت کا ہی کام ہے مگر علی امین کا یہ شکوہ بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ انہوں نے وفاقی حکومت اور فیصلہ سازوںکو افغان حکومت سے بات کرنے کے مشورے دیے مگر ان کی بات کو اہمیت نہیں دی گئی۔ اس کے بعد علی امین گنڈا پور نے افغانستان کے قونصل خانے کے نمائندوں سے بھی ملاقات کی۔ علی امین گنڈا پور کی بات خیبر پختون خوا کی آواز اور بات ہے اور خیبر پختون خوا ایسا صوبہ ہے جو ماضی کی کئی جنگوں کا بوجھ سہتے سہتے اب نڈھال ہو چکا ہے۔ اسی حالت کو پہنچنے کی وجہ سے یہ علاقہ کسی اور جنگ کا بوجھ اُٹھانے سے انکاری ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ غرض مند دیوانہ اور بے غرض مستانہ ہوتا ہے۔ خیبر پختون خوا کے عوام امن کے ضرورت مند اور غرض مند ہیں ان کی طلب تمنا اور شوق کو سفارت اور سیاست کی موشگافیوں کے زاویے سے دیکھا نہیں جا سکتا۔ انہیں امن کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت انہیں شہباز شریف فراہم کرے یا علی امین گنڈا پور اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے وفاق کا امن کے حصول کا طریقہ کار گھسا پِٹا نسخہ ہے۔ یہ نسخہ دہائیوں سے مستعمل ہے مگر حالت یہ ہے کہ ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘۔ امن کے حوالے سے پاکستان آج بھی وہیں کھڑا ہے جہاں آپریشنوں سے پہلے کھڑا تھا۔ اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ آپریشن مسائل کا حل نہیں بلکہ مسلسل بات چیت ہی مسائل کے حل کا بہترین راستہ ہے۔

آج کے افغانستان کی پاکستان کے لیے مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بنجر زمین کو گرم موسموں میں ہموار کیا، ہل جوتا اور بیج بویا اور پھر اس فصل کی ضرورتوں کا خیال رکھا اور جب فصل پک کر تیار ہوئی تو اس سارے عمل سے ناراض ہو کر اسے موسموں اور حالات کے تھپیڑوں کے حوالے کر دیا۔ افغانستان کا آج جو منظر ہے اسٹرٹیجک ڈیپتھ کے نام پر یہ منظر جنرل ضیاء الحق اور اختر عبدالرحمان نے اپنے فورمز پر دکھایا تھا۔ یہی وہ منظر تھا جو ان کے جانشینوں جنرل اسلم بیگ اور جنرل حمید گل دکھایا کرتے تھے کہ جب افغانستان میں پاکستان دوست حکومت آئے گی تو یہ ملک مغربی سرحد کے بکھیڑوں اور پریشانیوں سے آزاد ہو کر اپنی ساری توانیاں مشرقی سرحد کی حفاظت اور وہاں اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے صرف کرے گا۔ پاکستان دوست حکومت کا مطلب ظاہر شاہ کی حکومت کی بحالی نہیں تھا نہ بعد میں اس کا مطلب احمد شاہ مسعود اور برہان الدین ربانی یا حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کی بحالی تھا بلکہ اس کا مطلب سابق پشتون نسل طالبان یا جہادی کمانڈروں کی حکومت تھا۔ اس کی وجہ افغانستان اور پاکستان کے یہی مشترکات تھے کہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب پشتون آباد ہیں اور اس سرحدنے خاندانوں قبیلوں اور کھیتوں اور کھلیانوں کو تقسیم کیا ہے۔ پچاس سال سے دیکھے اور دکھائے جانے والے خوابوں کی یہ فصل پک کر تیار ہو گئی۔ امریکا سوویت یونین کی طرح جوتے چھوڑ کر بگرام ائر بیس سے رات کی تاریکی میں بھاگ نکلا اور طالبان جن کا اہم حصہ حقانی نیٹ ورک تھا، جس کی حمایت پر پاکستان کو بیس سال تک مغربی میڈیا اور حکمران مطعون کرتے اور ڈبل گیم کا الزام عائد کرتے رہے فاتحانہ انداز میں کابل میں داخل ہوئے تو پاکستان کے لیے فتح کا یہ انگور کھٹا بنادیا گیا۔ پاکستان اس فتح کا جشن منانے کے قابل بھی نہیں رہا۔ صرف فیض حمید نے بیس سالہ حجاب تھوڑا سا ہٹا کر اس اہم موقع پر کابل میں افغانی قہوے کی پیالی لہرائی تھی تو آج وہ جیل میں ہے یا پھر عمران خان نے اس تبدیلی کو غلامی کی زنجیریں کاٹنے کا نام دیا تھا تو وہ بھی جیل میں ہیں۔ ایف بی آر کے سابق سربراہ شبر زیدی نے تو عمران خان کے غلامی کی زنجیریں توڑنے والے بیان کو بھی ان کی فرد ِجرم کا ایک نکتہ قرار دیا تھا۔ پاکستان اب اپنے خواب کو ایک سراب کی طرح حسرت اور یاس کے ساتھ دیکھتا ہے۔

بلاول زرداری نگران وزیرخارجہ بن کر دنیا کے ایسے ملکوں میں گھومتے رہے۔ حتیٰ کہ بارہ سال بعد بھارت جانے والے پاکستانی وزیر خارجہ کا ریکارڈ بھی قائم کیا مگر افغانستان کو اچھوت سمجھ کر وہ بھولے سے وہاں نہیں گئے حالانکہ آج کے پاکستان کے کئی اہم مسائل کا تعلق افغانستان سے تھا۔ مستقبل میں جس جنگ کے لیے لنگر لنگوٹ کسے جارہے تھے اس میں بھی اس خطے اور سرحد کا کر دار اہم تھا مگر شاید یہ ان قوتوں کو قبول نہیں تھا جو حامد کرزئی کے افغانستان اور پرویز مشرف کے پاکستان کو اور نوازشریف کے پاکستان اور اشرف غنی کے افغانستان کو قریب لانے کی سرتوڑ کوششیں کرتے رہے۔ اب انہیں گوار ا نہیں تھا کہ شہباز شریف کا پاکستان ملا ہیبت اللہ کے افغانستان کے قریب آئے۔ جب دو ملک کسی مسئلے پر بیٹھیں گے نہیں تو بات کیسے ہوگی۔ اوّل تو یہ بتانا چاہیے کہ ماضی قریب میں بڑے ارمانو ں اور چائو کے ساتھ ڈیورنڈ لائن پر جو باڑھ لگی تھی اس کا کیا ہوا؟ اسے بھی تو دہشت گردی کے موثر علاج کے طور پر ہی نصب کیا گیا تھا مگر آج یہ باڑھ نشان عبرت بن چکی ہے۔ ٹک ٹاک پر ایک کسی منچلے نے اس باڑھ کی کٹی پھٹی تصویر اس تبصرے کے ساتھ لگائی تھی کہ ’’باجوہ ڈاکٹرائن کی تازہ ترین صورت حال‘‘۔ بھارت نے بھی کشمیر کی کنٹرول لائن پر باڑھ لگائی ہے کوئی اس باڑھ کی اس حد تک سرعام بے توقیری اور خلاف ورزی کا تصور نہیں کرسکتا۔

پاکستان میں چونکہ ہر کام ایڈہاک ازم کے تحت ہوتا ہے اس لیے باڑھ لگانے والے اپنی باری پر باڑھ لگا گئے حفاظت کون کرے گا اس کا انہیں کیا معلوم ؟۔ ایسے میں پشتون آبادی کے ’’مسئلے اور حل‘‘ کے بارے میں تصورات ریاست پاکستان کے تصورات سے مختلف ہوگئے ہیں۔ ریاست جس بات کو حل سمجھتی ہے پشتون آبادی اس کو مسئلہ سمجھتی ہے۔ اس تفاوت اور تضاد کی وجہ سے پشتون آبادی میں ایک غصہ پایا جاتا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی زمین بڑی طاقتوں کی جنگ کا فٹ بال بن چکی ہے۔ جس کے ساتھ کھیلنے والے ہر دور میں سرمایہ داروں کی ایک نئی کلاس کے طور پر اُبھرتے ہیں اور ان کے حصے میں قبرستانوں کی وسعتیں زخم اور غم آتے ہیں۔ امریکا کو سوویت یونین کا راستہ روکنا ہو یا چین پر نظر رکھنا تو میدان یہی سرزمین بنتی ہے جنگ کے اس شور اور گردو غبار میں خطے کے وسائل بھی اِدھر سے اُدھر ہوجاتے ہیں کہ کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ بدلتے ہوئے وقت اور وقت کے تقاضوں کو سمجھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ’’مودی جی‘‘ کے لیے ہم سرخ قالین بچھائے دیدہ ودل فرش راہ کیے بیٹھے ہیں حالانکہ وہ ہمار ے پسندیدہ اور چنیدہ نہیں رہے مگرمسند ِ کابل پر ملا عمر اور ملا ہیبت اللہ جیسی شخصیات کو بٹھانا تو ہمارا برسوں کا خواب ہے۔ جس خواب کو جواز بنا کر ہم سوویت یونین کو گرم پانیوں تک پہنچنے سے روکنے اور امریکا کو خطے سے دور رکھنے کے نام پر اپنے ملک کا حلیہ بگاڑ بیٹھے ہیں اور اپنی ہی پکی ہوئی فصل سے یوں ناراض ہوجانا کہاں کی دانش مندی ہے؟۔