ججز کی عمر کے تعین کیلئے بار کونسلز کو کمیٹی بنانے کی حکومتی پیشکش

94

اسلام آباد (نمائندہ جسارت) وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ جو آئینی ترامیم کا پیکج گردش کررہا ہے وہ محض تجاویز کا مسودہ ہے اور اسے حتمی نہیں کہا جاسکتا، جج کی مدت ملازمت کے تعین کے لیے بار کونسلز کمیٹیاں بنالیں جبکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شہزاد شوکت نے حکومت کی مجوزہ آئینی ترامیم کے نکات کے حوالے سے کہا ہے کہ آئینی عدالت کے قیام پر سب کے ساتھ اتفاق کیا ہے لیکن ہمیں آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر تحفظات ہیں۔تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں پاکستان اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ جو آئینی ترامیم کا مسودہ گردش کررہا ہے وہ محض تجاویز کا ڈرافٹ ہے، آئینی عدالت کے قیام کا مقصد آرٹیکل 184 کے تحت سوموٹو نوٹس کا تعین کرنا ہے کیونکہ 2009سے 2013 تک پھر 2018 اور 2019 میں ازخود نوٹسز کی بھرمار ہوئی تھی، جبکہ بے نظیر بھٹو کیس سننے والے جج کو دھمکیاں مل رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ مجوزہ آئینی ترامیم کے بعد عدالت میں چاروں وفاقی اکائیوں کی نمائندگی ہوگی۔ وزیرقانون نے کہا کہ آئینی حدود میں رہتے ہوئے قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے، جب تک حکومت سے منظوری نہ ہو تو اسے بل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان 2006 میں میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے تھے جس میں طے پایا تھا کہ انصاف کے قانون کو آسان بنایا جائے جبکہ وکلا نے بھی عدالتی اصلاحات کے مطالبات رکھے تھے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ جنوری اور مارچ میں آئینی ترامیم کے حوالے سے مذاکرات ہوئے، جس میں انہیں پیش کرنے اور منظور کروانے پر رضا مندی ہوئی تھی اور 18ویں ترمیم کے نامکمل ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا۔ وزیر قانون نے کہا کہ کابینہ کی منظوری کے بعد آئینی ترامیم پارلیمنٹ میں پیش کی جاتی ہیں اور پھر یہ دو تہائی اکثریت کی صورت میں پاس ہوتی ہیں، جب تک کسی بھی بل کو کابینہ میں پیش نہ کیا جائے اْسے بل نہیں کہا جاسکتا۔انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت سے پہلے آئینی عدالت کے قیام کا تصور عاصمہ جہانگیر صاحبہ مرحومہ نے دیا تھا، آئینی عدالت کا خاکہ 9ممبران پر مشتمل تھا، ہم نے سوچا آئینی عدالت کے لیے صوبوں کی بھی نمائندگی ہو۔ وزیر قانون نے مزید کہا کہ جج کی عمر کی حد 65 یا 68 سال کرنے پر بار کونسلز چاہیں تو کمیٹی بھی بنا سکتی ہیں، ہماری شکایت یہ ہے کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو بھی اعتماد میں لیا جاتا۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شہزاد شوکت نے کہا کہ آئینی عدالت کے قیام سے سب سے اتفاق کیا۔ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اس معاملے پر گفت و شنید کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ شہزاد شوکت نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پر ہمارے تحفظات ہیں، ہم نے اس معاملے پر ایک درخواست بھی دائر کر رکھی ہے اور ہمارا عدالت عظمیٰ سے مطالبہ ہے کہ آرٹیکل 63 اے کے فیصلے کے خلاف ہماری درخواست پر سماعت کی جائے۔ بعد ازاں صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شہزاد شوکت نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل کا مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا، جس میں کہا گیا کہ آئین میں ترمیم پارلیمان کا اختیار ہے، آئین کے بنیادی خدوخال سے متصادم ترمیم نہیں ہونی چاہیے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ مختلف وکلا کونسل کے نمائندگان پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے گی اور ایوان اعلان کرتا ہے کہ آئینی ترامیم کا حتمی مسودہ وکلا نمائندوں کی کمیٹی سے شیئر کیا جائے گا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ وکلا کے منتخب نمائندوں کے سوا کسی دوسرے کو ہڑتال کی کال دینے کا اختیار نہیں ہے، آئینی عدالت کی تشکیل کا معاملہ وکلا سے مشاورت کے بعد آگے بڑھایا جائے گا اور مطالبہ کیا گیا کہ 63 اے میں عدالتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کی جائے۔صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ خوشی ہوتی اگر اختلاف رکھنے والے وکلا آج یہاں آتے، اختلاف کرنے والے وفاقی وزیر قانون سے سوالات کرتے۔