حکومت عدالت عظمیٰ کے حصے بخرے کرنے کیلئے آئین کا ڈھانچہ تبدیل کرنا چاہتی ہے

124

کراچی (رپورٹ: محمد انور) حکومت عدالت عظمیٰ کے حصے بخرے کرنے کے لیے آئین کا ڈھانچہ تبدیل کرنا چاہتی ہے‘ ادارے ابھی قانون کے مطابق ایک دوسر ے کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، مجوزہ ترمیم ہوئی تو عدالتی نظام غیر موثر ہونے سے توازن بگڑ جائے گا اور مسائل پیدا ہوں گے‘ مقتدر حلقے من مانی کرنے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں ‘ عدلیہ کی آزادی سے متعلق شقوں میں ترمیم نہیں کی جاسکتی۔ ان خیالات کا اظہار بلدیہ عظمیٰ کراچی کے پارلیمانی لیڈر، جماعت اسلامی کے مقامی رہنما سیف الدین ایڈووکیٹ‘سابق گورنر سندھ، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل معین الدین حیدر اور سندھ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس وجیہ الدین احمد نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا حکومت آئینی ترمیم کے ذریعے آئین کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟‘‘ سیف الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ حکومت آئین میں تبدیلی سے ایک بلا ضرورت اقدام کرنا چاہ رہی ہے‘ ایسے اقدامات سے صرف ملک اور قوم کا نقصان ہی ہوسکتا ہے ناکہ بہتری‘ ان اقدامات کے نتیجے میں ملک میں افراتفری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا‘ اس لیے ایسے اقدامات کرنے سے حکومت کو باز رہنا چاہیے‘ لگتا ہے کہ حکومت اس ترمیم کے ذریعے آئین کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل کرنا چاہ رہی ہے حالانکہ موجودہ آئین کے تحت تمام ادارے قانون کے مطابق کام کر رہے ہیں اور ایک دوسرے سے نتھی ہیں اور ان کے درمیان آئین کے تحت بیلنس قائم ہے جبکہ آئین میں ترمیم کرکے حکومت عدالت عظمیٰ کے حصے بخرے کرنا چاہتی ہے جس سے نئے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اور عدالت اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر رہے گی اور عدالتوں کے اختیارات کم ہوجائیں گے اور پاکستان کا نظام متاثر ہوگا جبکہ مقتدر حلقے جو بھی فیصلہ کرنا چاہیں گے وہ کرلیں گے‘ عدالت عظمیٰ آئین کے کسی فیصلے پر کوئی اہم فیصلہ بھی نہیں کرسکے گی جس کے نتیجے میں اداروں کے درمیان بیلنس قائم نہیں رہ سکے گا۔ معین الدین حیدر نے کہا کہ مجھے تو نہیں معلوم ہے کہ حکومت کیا کرنا چاہتی ہے‘ اخبارات اور ٹی وی چینلز سے خبریں آ رہی ہیںکہ حکومت آئین میں تبدیلی کرنا چاہ رہی ہے اور پارلیمنٹ میں بحث ہو رہی ہے‘ حکومت آئین میں تبدیلی کرنا چاہ رہی ہے جو عوام کے مفاد میں نہیں ہے‘ حکومت کو ایسا نہیں کرنا چاہیے‘ انتہائی ضروری ہو تو ارکان پارلیمنٹ اور عوام کو اعتماد میں لے کر ایسا کام کرنا چاہیے‘ تمام ارکان کے علم میں ہونا چاہیے کہ حکومت کیا کرنا چاہ رہی ہے۔ وجیہ الدین احمد نے کہا کہ اس مجوزہ ترمیم کا مقصد یہی تھا کہ آئین میں تبدیلی کی جائے اور ججوں کے معاملات کو کنٹرول کیا جائے‘ فی الحال تو یہ کوشش مولانا فضل الرحمن کے اعتراض کے بعد ابھی ملتوی ہوگئی ہے‘ مولانا نے کہا کہ آپ (پارلیمنٹ) ججوں کی مدتملازمت میں جو توسیع کرنا چاہتے ہیں اس کی میں (مولانا فضل الرحمن) حمایت نہیں کروں گا‘ اس ترمیمی مسودے کا مقصد کسی طرح جج صاحبان کو قابو کرنا تھا اور چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع ہونے کی صورت میں ان کی ہمدردیاں حکومت کو حاصل ہو جاتیں‘ آئین کی کچھ شقیں ایسی ہیں جن میں ترمیم نہیں کی جا سکتی ان میں عدالت کی آزادی بھی شامل ہے ‘ اس طرح کی ترمیم سے عدالت پر قدغن لگ سکتا ہے۔