بھارت کو بنگلا دیش میں تبدیلی سے جو تکلیف ہوئی ہے اس میں سب سے بڑا مسئلہ جماعت اسلامی ہی ہے چینی مندوب نے بنگلا دیش کا دورہ کیا اور اس کے دورہ ڈھاکا سے سب سے بڑا دھچکا بھارت کو چینی مندوب کے ڈھاکا میں جماعت اسلامی کے مرکز پہنچنے سے لگا۔ چینل 19 کے پروگرام میں بھی نوحے پڑھے گئے، اور اس طرح اینکر چیخ رہا تھا جیسے پاکستانی اینکرز اپنی بے معنی بات منوانے اور دوسرے فریق کو چپ کرانے کے لیے چیختے ہیں، اسے اعتراض تھا کہ چینی مندوب کے جماعت اسلامی مرکز پہنچنے پر جماعت کے امیر شفیق الرحمن ان کے برابر کیوں کھڑے تھے، ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ عوامی لیگ کے آفس پہنچے ہوں اور جماعت کے امیر وہاں ان کے برابر آکر کھڑے ہوگئے ہوں، چینی مندوب جہاں گئے تھے اسی کا صدر برابر میں کھڑا ہوگا، اگر چینی مندوب نے کہا کہ ہم بنگلا دیش کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ جاری رکھیں گے اور جماعت کے سربراہ نے اس کی توثیق کی تو کیا برا کیا، بنگلا دیش کا فائدہ تو اسی میں ہے، بھارتی اینکر کے خیال میں جماعت اسلامی کے امیر کو چینی مندوب کو باہر نکال دینا چاہیے تھا کہ اب آئے ہو جب حسینہ واجد کو نکال دیا گیا ہے، ظاہر ہے ایسا نہیں ہونا تھا، پھر جب جماعت کے امیر نے روہنگیا مسلمانوں کی بحالی کی بات کی اور ون چائنا پالیسی کی حمایت کی تو انتہا پسند بھارت کے انتہا پسندوں کو چین کے ایغور مسلمان یاد آئے، کہ ان کا ذکر نہیں ہوا، بالکل ہونا چاہیے تھا، لیکن اس کا فیصلہ جماعت اسلامی کرے گی کہ کب کون سی بات کرنی ہے، اور یہ ریکارڈ پر ہے کہ جب جماعت اسلامی پاکستان کا وفد چین گیا تھا تو اس نے ایغور مسلمانوں کا مسئلہ نہ صرف اٹھایا تھا بلکہ چینی حکومت کی جانب سے ایغور مسلمانوں کو چینی کمیونٹی قرار دینے کی کوشش کو ناکام بنایا اور انہیں چینی مسلمانوں کے طور پر تسلیم کروایا اور ان کے ساتھ جمعہ کی نماز بھی ادا کی، جماعت اسلامی بنگلا دیش اخوان کے بعد سختیاں برداشت کرنے والی دوسری تحریک ہے، وہ ایک چینی مندوب کے سامنے حق بات کہنے سے کیونکر ڈرے گی جبکہ اس کی قیادت نے پچاس سال جبر کے سامنے کلمہ حق کہا ہے، اور بھارتی اینکر کو بھارتی مسلمان، دلت اور عیسائی اقلیتیں یاد نہیں آئیں جن کو کچلنا وہ اپنا دھرم سمجھتے ہیں۔
اس اینکر کی صحافت اس وقت سڑک پر آگئی جب اس نے چینی مبصر کو لائن پر لیا جس نے کہا کہ بنگلا دیش میں حکومت کی تبدیلی ہوئی ہے چین میں نہیں، بھارت کی دوست حکومت ختم ہوئی ہے، اس نے کہا کہ اس تبدیلی سے چین کو اپنی تجارتی سرگرمیاں بحال کرنے میں مدد ملے گی جن کو ماضی میں دھچکا لگا تھا اور گوادر ڈیپ سی پورٹ سے بنگلا دیش کو تو فائدہ ہوگا بھارت کو بھی ہونا ہے۔ اس بات پر اینکر نے عام چھچھورے اینکرز کی طرح چیخنا شروع کردیا، بس مہمان کا مائک بند نہیں کیا اور چیخ چیخ کر کہنا شروع کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ چین ایک طرف دہشت گردی ختم کرنا چاہتا ہے اور دوسری طرف دہشت گردوں کی مدد کرنے والے گروہ (جماعت اسلامی) سے ہاتھ ملا رہا ہے جو انتہا پسند ہیں اور اپنے ملک کے مفاد کے خلاف ہیں، تنظیم آزادی فلسطین کے پشتیبان ہیں، اس پر چینی ماہر نے کہا کہ آپ ہر ایک کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانک سکتے، اس کے بعد اینکر نے رٹا ہوا سبق اتنی زور زور سے اونچی آواز کے ساتھ دہرایا کہ چینی ماہر خاموش ہوگیا اور مسکراتا رہا، اس کے فوراً بعد اینکر نے ایک اور انتہا پسند ہندو ڈاکٹر اگر ناتھن کو لائن پرلیا جو ہندوستان کو چھوڑ کر چینی مسلمانوں کی محبت میں گرفتار تھا، اس کی بات درست تھی کہ چین میں
مسلمانوں پر مظالم ہورہے ہیں لیکن یہ بات کہنے اور چین میں مساجد شہید کرنے کی بات کرنے والے انتہاپسند ہندو کو بابری مسجد سمیت سیکڑوں مساجد یاد نہیں آئیں جو ہندوستان میں مٹا دی گئی ہیں، اور گوشت خرید کر لے جانے والے مسلمانوں کا بہیمانہ قتل یاد نہیں رہا یہ بالکل اسی طرح ہوگا کہ کوئی چینی دانشور یا صحافی دوسرے ملکوں میں مذہبی آزادیوں اور اقلیتوں کے حقوق کی آواز اٹھائے۔ جمہوریت کی بات کرے۔ اس وقت یہی کہا جائے گا کہ چین پہلے اپنے ملک میں مذہبی اور جمہوری آزادیاں دے اس کے بعد دوسروں پر تنقید کی جائے۔ اسی طرح بنگلا دیش کی حکومت بدلے جانے یا حسینہ واجد کو نکالے جانے پر بھارتیوں پر دیوانگی اس حد تک طاری ہے کہ بنگلا دیش کی کرکٹ ٹیم کو انتہا پسند ہندوؤں کے حملوں کا سامنا ہے، گویا انہیں یقین ہوگیا ہے کہ اب بنگلا دیش اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ دوسری طرف جہاں ڈاکٹر یونس نے شیخ حسینہ کو مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے بنگلا دیش آنے تک خاموش رہنے کا مشورہ دیا ہے وہیں انہوں نے بنگلا دیش میں موجود ہندو اقلیت سے درخواست کی ہے کہ اذانوں اور نماز کے اوقات میں وہ مساجد کے قریب بھجن گانے اور سنکھ بجانے سے پرہیز کریں، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بھارتی مداخلت اور شیخ حسینہ نے اسلامی ملک کا کیا حال کردیا تھا۔ اس بنیاد پر تو ہم بھی چاہیں گے کہ بنگلا دیش کا عبوری دور طویل ہی ہو۔
اسی طرح بنگلا دیش میں جو سوچ دبادی گئی تھی کہ پاکستان سے بنگلا دیش کے برادرانہ تعلقات مضبوط ہونے چاہئیں، اب یہ سوچ دوبارہ ابھرنے لگی ہے، حتیٰ کہ بنگلا دیش کے قیام کے بعد سے اس سال ستمبر تک بانی ٔ پاکستان (بشمول موجودہ بنگلا دیش) قائد اعظم محمد علی جناح کی برسی کبھی نہیں منائی گئی صرف ایک ماہ میں ایسی تبدیلی کیسے آگئی کہ اس سال پہلی مرتبہ بنگلا دیش میں بابائے قوم کی برسی منائی گئی ہے، اور یہ نواب سلیم اللہ خاں سوسائٹی کی طرف سے منائی گئی، اس کا مطلب ہے کہ پاکستان سے محبت کے جذبات موجود تھے اور دبائے گئے تھے لیکن دباؤ ہٹتے ہی ابھر کر سامنے آگئے۔ قوموں کی، زندگی میں پچاس ساٹھ سال کی بڑی اہمیت نہیں ہوتی اس لیے پچاس سال کے جبر کے باوجود ایسے جذبات کا ابھرنا خوش آئند ہے۔ ایک اور اہم بات جو بھارت نہیں ہونے دینا چاہتا وہ پاکستان بنگلا دیش تعلقات ہیں، ایک بنگلا دیشی پروفیسر ڈاکٹر شاہد الزماں کہتے ہیں کہ بھارت یہ نہیں ہونے دینا چاہتا لیکن یہ ہو جانا چاہیے، بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور خطے کا چودھری بننے کا خیال روکنے کے لیے ایک ہی جواب ہونا چاہیے اور وہ بنگلا دیش کا ایٹمی صلاحیت حاصل کرنا ہے، انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس کام کے لیے ہمیں پاکستان کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کرنا ہوگا اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ایٹمی قوت بن جائیں لیکن پاکستان اس معاملے میں بنگلادیش کا سب سے مضبوط قابل اعتماد حلیف ثابت ہوگا پروفیسر شاہد الزماں نے کہا کہ پاکستانیوں کے دل دکھے ہوئے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ وہ ہم سے باضابطہ معذرت کرنے کا مطالبہ تو نہیں کریں گے لیکن وہ ہمیں بھارت کا پٹھو بھی نہیں دیکھنا چاہتے اس لیے بھارت ایسا ہوتا دیکھ نہیں سکتا اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا ہوجانا چاہیے، کیونکہ اب پاکستان ہمیں بھارتی پنجوں میں پھنسا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا، ان کی اور دوسرے بنگلا دیشی دانشوروں کی سوچ بہت مثبت ہے لیکن پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کیا سوچ رہی ہے اس بارے میں کوئی چیز باضابطہ سامنے نہیں آئی ہے، بہرحال عوامی سطح پر جذبات دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے دونوں بازوؤں میں دوری کی نصف صدی دراصل ایک عبوری دور تھا جو اب ختم ہوتا نظر آرہا ہے اگر خلوص نیت سے دوطرفہ پیش رفت ہو تو اب اصلی ابدی یا مستقل دور شروع ہوگا۔