کھائیں گڑ اور گلگلوں سے پرہیز بھی

311

پیپلز پارٹی کے سینئر وزیر نثار کھوڑو فرماتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو وزارتوں کی ضرورت نہیں کہتے تو درست ہی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے خارجہ امور کی وزارت ٹھکرا کروزارت عظمیٰ پر نظریں گاڑ لی تھیں اور اپنے اس خواب کو پورا کرنے کے لیے جمہوریت کی روح یعنی اکثریت کی جیت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور یوں ملک دولخت ہو گیا پھر بچے کھچے پاکستان کے صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے اور آخر کار وزیراعظم بن ہی گئے یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ایک جرنیل نے سیاست دان کو استعمال کیا یا پھر سیاستدان نے جنرل کو! یہ وہ داغ ہے جو پی پی پی 55 سال میں بھی نہ مٹا سکی پھر بھی کہتے ہیں ہمیں وزارتوں کی ضرورت نہیں۔ خود نثار کھوڑو پی پی پی کے ہر دور میں وزارت سے کم پر راضی نہ ہوئے اسی لیے تو سینئر وزیر کہلاتے ہیں سندھ اسمبلی کے 56 ارکان سید یعنی شاہ ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سب آپس میں کہیں نہ کہیں سے رشتہ دار ہیں اور زیادہ تر وزارتیں انہی میں تقسیم ہیں اس لیے ہم پیپلز پارٹی سندھ کو شاہی پارٹی بھی کہتے ہیں وہ جو کہتے ہیں ہمیں وزارتوں کی ضرورت نہیں ان کی کابینہ کا حجم تو دیکھیے وزراء کی تعداد تو صرف 18 ہے مگر معاونین خصوصی بھی 10 ہیں ان کے علاوہ 02 مشیر بھی ہیں ان تمام معاون اور مشیران کو وزیر کے مساوی درجہ حاصل ہے اس کے علاوہ سندھ حکومت نے اپنے 08 ترجمان بھی مقرر کیے ہیں بات یہاں ختم نہیں ہوتی تقریباً 30 پارلیمانی سیکرٹری بھی بنائے ہیں جن کو ہر ماہ 50 ہزار روپے اضافی الاؤنس کے علاوہ گاڑی مع ڈرائیور، کرایہ مکان، ہوائی ٹکٹ، بیرون ملک کی سفر کی سہولت، دفتر الاؤنس، میڈیکل الاؤنس اور بہت کچھ جو ایک وزیر کو ملتا ہے اس سے اندازہ لگا لیں کہ پیپلز پارٹی کو وزارت کی ضرورت ہے یا ضرورت خود اپنا راستہ بنا رہی ہے۔

پیپلز پارٹی سندھ ہی کے ایک اور سینئر وزیر ناصر حسین شاہ ہیں جن کو دور حاضر کا مظفر ٹپی سمجھا جاتا ہے اور وہ بھی سیاست میں آنے کے بعد وزارت ہی سے لطف اندوز ہوتے رہے ہیں آج کل ان کے پاس توانائی کی وزارت ہے جس کے حوالے سے فرماتے ہیں اگر وفاق میں ہماری حکومت ہوتی تو ہم عوام کو 300 یونٹ مفت بجلی فراہم کرتے۔ 300 یونٹ مفت بجلی دینے کا نعرہ بلکہ جھانسا تو بلاول زرداری نے انتخاب جیتنے کے لیے دیا تھا کامیاب نہ ہوئے مگر وفاق نہ سہی سندھ میں تو آپ کی حکومت ہے بلکہ 16 سال بیت چلے مگر یہاں بھی صرف 100 یونٹ وہ بھی سولر کے ذریعے فراہم کرنے کا آغاز کیا گیا ہے یعنی سولر کے سلسلے میں سب چیزوں کی خریداری میں بھی کچھ لوگوں کا تو بھلا ہو ہی جائے گا پھر یہ کہ پیپلز پارٹی نے غربت کا معیار بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو بنایا ہوا ہے جبکہ EOBI کے پنشنرز بھی اس کے مستحق ہیں جن کو صرف 10000 روپے ماہانہ میں گزارا کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے اور ہر ریلیف کو BISP سے جوڑ دیا جاتا ہے اور عوام منہ تکتے رہ جاتے ہیں رہ گیا بلاول کا 300 یونٹ مفت بجلی دینے کا جھانسا تو یہ بات ہم بڑے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ 300 یونٹ مفت بجلی تو یہ بھی نہیں دے سکتے تھے بلکہ بجلی کا جو مارجن آف پرافٹ ہے وہ اس کی اجازت ہی نہیں دیتا پھر بھی ہم بلاول زرداری کو مشورہ دیتے ہیں کہ اگر وہ اپنی 300 کی گردان کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو وفاق سے 300 یونٹ تک بجلی کے بلوں کو ٹیکس فری کروا سکتے ہیں مگر آپ یہ نہیں کریں گے تو پھر 300 کی گردان کے لیے سستی بجلی یعنی (Protected) کی حد جو کہ اس وقت 200 یونٹ استعمال کرنے والوں کو حاصل ہے 300 یونٹ تک بڑھا دی جائے کہ 200 یونٹ آگے جائیں بل میں 200 فی صد کا اضافہ ہو جاتاہے۔ اگر یہ حد بڑھ جائے تو عوام کا کچھ بھلا ہو ہی جائے گا اور یوں بلاول کی 300 کی گردان کی لاج بھی رہ جائے گی مگر وہ ایسا کوئی کام نہیں کریں گے جس سے عوام کو فائدہ ہو۔

ان کے پاس وفاقی وزارتیں نہیں یہ بھی خوب رہی (ان کی قوت کا اندازہ سابق وزیر اور نجومی خاص منظور وسان کے بیان بخوبی لگا یا جاسکتا ہے۔ فرماتے ہیں ہماری سپورٹ ختم ہوئی تو شہباز شریف مشکل میں ہوں گے) وزارت نہیں لیں گے مگر بلوچستان کی وزارت اعلیٰ لے لیں گے پنجاب اور کے پی کے کی گورنر شپ بھی لے لیں گے اور سندھ پر تو 16سال سے قابض ہیں اور یوں چاروں صوبوں میں آپ ہی گدی نشین ہیں اور حسب سابق سینیٹ کے چیئرمین کی نشست پر بھی جیالا ہی برجمان ہے اور سب سے بڑھ کر ملک کا سربراہ یعنی صدر مملکت بھی پی پی پی کا سربراہ ہی تو ہے تو یہ کہنا کہ ہمارے پاس وفاق میں وزارتیں نہیں ہیں کہاں تک درست ہے مگر آپ مزے تو وزارتوں سے بھی بڑھ کر لے رہے اور نعرہ لگاتے ہیں وزارتیں نہیں لیں گے یہ تو ایسے ہی ہے کہ آپ گڑ تو کھائیں اور گلگلوں سے پرہیز کریں۔